واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے
جب وہ پشیماں نظر آئے ہیں
جبیں عشق میں آسرا دینے والے
جھنجھلائےہیں، لجائےہیں پھر مسکرائے ہیں
عشق خدا کی دین ہے، عشق سے منہ نہ موڑیے
ایک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھئے
وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں
اے موت تمہیں بھلائے زمانے گزر گئے
اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں
زندگی ساقی بہت محفوظ مے خانے میں ہے
ہجر کی شب ہے اور اُجالا ہے
بے قراری گئی قرار گیا
الٰہی ترک محبت نہ راس آئے مجھے
بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے
آنکھوں کے چراغوں میں اُجالے نہ رہیں گے
درد بے کیف غم بے مزا ہو گیا
ایک شعلہ ساگرا شیشے سےپیمانےمیں
مجھ کو شکستِ دل کا مزا یاد آ گیا
جب کبھی مجھ کو غمِ دہر نے ناشاد کیا
ہم اُنہیں وہ ہمیں بُھلا بیٹھے