مل کر جدا ہوئے تو ؟
پہلے تو اپنے دل کے راز جان جائیے
پریشان رات ساری ہے ستارو تم تو سو جائو
یوں چُپ رہنا ٹھیک نہیں کوئی میٹھی بات کرو
کیا ہے جسے پیار ہم نے زندگی کی طرح
جو بھی غنچہ تیرے ہونٹوں پر کھلا کرتا ہے
اک اک پتھر جوڑ کے میں نے
ہجر کی پہلی شام کے سائے دور اُفق تک چھائے تھے
گرمی حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
دل کو غمِ حیات گوارہ ہے ان دنوں
درد سے میرا دامن بھر دے یا اللّہ,
چراغ دل کے جلائو کہ عید کا دن ہے
بے چین بہاروں میں !
اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو
انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی