چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں
سمندر پار ہوتی جا رہی ہے
محلہ سائیں سائیں کر رہا ہے
وہ اک اک بات پہ رونے لگا تھا
یہ زندگی کسی گونگے کا خواب ہے بیٹا
جب میں دُنیا کے لیے بیچ کے گھر آیا تھا
سب ہُنر اپنی بُرائی میں دکھائی دینگے
اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں
رشتوں کی دھوپ چھائوں سے آزاد ہو گئے
زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں
کہاں وہ خواب محل تاج داریوں والے
گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے