یکسوئی
جو بات تجھ میں ہے تری تصویر میں نہیں
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
تم نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے
میں پل دو پل کا شاعر ہوں
کبھی کبھی
محبت ترک کی میں نے گریبان سی لیا میں نے
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زنگی سے ہم
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
یہ کوچے یہ نیلام گھر دل کشی کے
تم چلی جائو گی، پرچھائیاں رہ جائیں گی
ساحر لدھیانوی