اس سے وفا کی آس نہیں ہم بھی کیا کریں
عشق کا تجربہ ضروری ہے
جب سے یہ زندگی ملی ہے ہمیں
دل رنجیدہ کو اکثر یہی سمجھاتے ہیں
ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی
تجھ سے بچھڑ کے تنہا نہ چلتے پر کیا کریں
ایسی تاریکی ہے کہ نام بجھے جاتے ہیں
دنیا میں ہنگامہ برپا لگتا ہے
بے اثر ٹھہری مسیحا کی دعا میرے بعد
نزر نامہ مہ و شانِ شوخ پیکر کیجیے
رند کو مے چاہیے واعظ کو ایماں چاہیے
ہم قافلہ خوشبوئے ایوانِ وفا ہیں
ٹھر گیا ہے کہیں دل ، سمٹ گئی ہے نظر
درد سے دل نے آشنائی کی
آزردگئی جاں کا ہنر سیکھ رہے ہیں
اس شہر تجارت میں ہر چیز میسر ہے
ہم نے اس شہر میں جینے کا ہنر ضائع کیا
نام آوروں کے شہر میں گمنام گھومنا