کیتھولکس کو ’کریمیشن‘ کی اجازت ہے، لیکن خاک کی تدفین لازم: ویٹیکن

Vatican

Vatican

واشنگٹن (جیوڈیسک) نئی ہدایات جاری کرتے ہوئے، ویٹیکن نے اِس بات کی سفارش کی ہے کہ کیتھولک لاش کو آگ میں پھونکنے (کریمیشن کے عمل) کے بعد بھی قبرستان میں دفن کیا جانا لازم ہے، ناکہ خاک کو گھر میں رکھنا، پھیلا دینا، یا اہل خانہ میں تقسیم کرنا۔

ویٹیکن کی جانب سے منگل کے روز ’مذہبی عقائد‘ پر اجتماعی دعا کے دوران ’کریمیشن‘ کے بارے میں نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ کلیسا نےلاش کو آگ میں پھونکنے کے عمل کی منظوری کا اعادہ کیا۔ تاہم، اِس بات پر زور دیا کہ خاک کو دفن کرنے کی ضرورت رہتی ہے۔۔یعنی تمام اعضا کا ایک ہی مقام پر دفن کیا جانا۔۔ جو قبر کی صورت میں یا دیگر ’’متبرک مقامات‘‘ کی شکل میں ہو۔

ہدایات میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’فوت ہو جانے والے فرد کی خاک کو ہوا، زمین یا سمندر برد کرنا یا کسی اور طرح سے پھیلا دینے کی اجازت نہیں ہے، نا ہی اس بات کی اجازت ہے کہ یادگار کے طور پر خاک کو محفوظ کر لیا جائے، زیورات میں اس کے ذرات کو رکھا جائے یا دیگر چیزوں میں محفوظ کرلیا جائے‘‘۔

چرچ نے واضح کیا ہے کہ اِس کا مقصد یہ ہے کہ بے حرمتی نہ ہو، اور خاک کو ایک ہی مقام پر ڈالا جائے، جہاں فوت ہونے والا دیگر مسیحیوں کے ساتھ دعا اور یاد کے موقع پر شامل رہے، الگ نہ رہ جائے۔

امریکہ میں رفتہ رفتہ ’کریمیشن‘ پسندیدہ عمل بنتا جا رہا ہے۔

شمالی امریکہ کی ’کریمیشن‘ تنظیم، جو کریمیشن سے متعلق ایک کاروباری گروپ ہے، بتایا ہے کہ سنہ 2015 میں امریکہ میں فوت ہونے والے افراد کی نصف کو کریمیٹ کیا گیا، جب کہ 2000ء میں یہ شرح تقریباً 25 فی صد تھی۔

سنہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں ’سیکنڈ ویٹیکن کونسل‘ کی جانب سے اعلان کردہ کلیسا کا سرکاری مؤقف یہ تھا کہ کریمیشن ترجیحی عمل نہیں۔ لیکن ساتھ ہی، اس پر منع عائد نہیں ہے، اُس وقت تک کہ اِس عمل کی وجہ ترجیح کا معاملہ ہو ناکہ کلیسا کو بدنام کرنے کی کوئی کوشش ہو۔