سیمنٹ مینوفیکچررز نے گیس سیس ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا

Cement

Cement

کراچی (جیوڈیسک) سیمنٹ مینوفیکچررز نے کہا ہے کہ گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) صنعتی پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے لہٰذا اسے ختم کر دیا جائے۔

آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (اے پی سی ایم اے) کے چیئرمین محمد علی ٹبہ نے حکومت کو پیش کردہ بجٹ تجاویز میں کہا ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں مائع قدرتی گیس سمیت ایندھن کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی روشنی میں جی آئی ڈی سی کا اطلاق ملکی اشیا کو برآمدی منڈیوں میں غیرمسابقتی بنا دے گا۔ حکومت نے گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ ایکٹ 2011 نافذ کیا جس کے مطابق گھریلو شعبے کے علاوہ گیس کے تمام صارفین پر سیس کا اطلاق کر دیا گیا،اسے آئین سے تجاوز قرار دیتے ہوئے چیلنج کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے بھی قراردیاکہ یہ سیس ’’فیس ‘‘ ہے‘ ’’ٹیکس‘‘ نہیں اور وہ تمام رقم جو 2011 ایکٹ کے تحت وصول کی گئی اسے واپس کیا جانا تھا یا 22 اگست 2014کے فیصلے کے مطابق 6ماہ کے اندر ماہانہ بلوں میں ایڈجسٹ کرنے کا کہا گیا تھا نتیجتاً حکومت نے گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ آرڈیننس 2014 لاگو کر دیا جس کی دفعہ 8 کے ذریعے 2011ایکٹ کے تحت وصول کی گئی رقوم کو جائز طور پر جمع کی گئی رقم قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔

اس آرڈیننس کی مدت جنوری 2015کو ختم ہونا تھی لیکن قومی اسمبلی نے اس کی مدت مئی 2015 تک بڑھا دی تھی، مئی 2015 میں حکومت نے جی آئی ڈی سی ایکٹ 2015 منظور کر لیا تاہم سندھ ہائی کورٹ میں مقدمے کے ذریعے جی آئی ڈی سی کے اطلاق اور اسے پرانی تاریخ سے موثر کرنے کے عمل کو چیلنج کیا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے سماعت کے پہلے ہی روز ایکٹ 2015 کے تحت جی آئی ڈی سی کی وصولی کے خلاف حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔ محمد علی ٹبہ نے مطالبہ کیاکہ کوئلے کی درآمد پر ڈیوٹی 1سے 6 فیصد کرنے سے مینوفیکچررز بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور کاروباری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ محمد علی ٹبہ نے تجویز پیش کی کہ کوئلے کی درآمدی ڈیوٹی صفر کی جائے، اس طرح کوئلے کے بطور متبادل توانائی استعمال کو فروغ ملے گا۔