مناجات معصومین کی تقریب رونمائی

Ceremony

Ceremony

تحریر : منشاء فریدی
ادبی تقاریب وسیب میں مثبت رویوں کا باعث ہیں۔یہ تقاریب ہمارے عمومی سماجی اور اجتماعی رویوں کے عروج کیلئے محدود معاون ثابت ہوتی ہیں۔وہ معاشرہ جمہور کا شکار ہو کر فناء کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔جہاں ثقافتی و ادبی اجتماعات اور میلے ختم ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں موجادہ حالات کی ذمہ داری بھی انھی اسباب پر ڈالی جاسکتی ہے کیونکہ جب سے وطن عزیز میں ثقافتی اور ادبی تقاریب اور میلوں کو مخصوص مائنڈسیٹ نیشجر ممنوعہ قرار دیا۔تب سے نہایت اعلیٰ ادب اور فنون لطیفہ کے پیدا کار دبائو میں آکر خاموش ہوتے گئے یا انہیں زبردستی خاموش کرا دیا گیا لیکن پھر بھی اعلیٰ فکر کی نمو رک نہ سکی۔جدید ادب کا کام مستقل چلتارہا ۔کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔تقاریب کا انعقاد مسلسل ہوتا رہا ۔مشاعرے جوبنپر رہے۔ادبی محافل جمتی رہیں ۔عالمی ادب کا ترجمہ ہمارے یہاں سرائیکی اور اردو میں ہوتا رہا ۔تشبیہات استعارات اوتلمیحات شاعری میں بلا دھڑک استعمال ہوتے رہے ۔ تنگ نظرمعاشرہ شکست فاش کا شکار رہاگو کہ ریاستی بیانیہ متصادم منفی بیانیے کا حامی رہا۔ سرائیکی ہمہ جہت اور مکمل زبان ہے۔اس کی اپنی مخصوص اصوات ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سرائیکی زبان کو کسی بھی زبان کا لہجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔سرائیکی ادب کو اس وقت عالمی ادب کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔ہمارا ادیب اگر تھڑوں میں تقسیم نہ ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ بہر حال سرائیکی قلم کار (شعراء اور نثر گار)اپنی ذمہ داری اوربطریق احسن نبھا رہے ہیں۔(یہاں یہ حوالہ بھی ضروری ہے کہ کچھ متشاعر( غیر ادیب قسم کے لونڈے) ادب میں محض تحمینی مضامین لکھ کر ادیبوں میں اپنی مخصوصی چاپلوس طبیعت اور فطرت کے ذریعے اپنی پہچان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایسے خوشامدی اور غیر معیاری عناصر کو ہمارے ادب نے پہلے ہی سے مستردکر دیاہے)۔آئمہ سے منسوب دعائوں کا منظوم سرائیکی ترجمہ ڈیرہ غازی خان (چوٹی بالا)کے انتہائی زرخیز ذہن اور معروف نقاذ ،محقق،مورخ،ماہر، علم، عروض،مصنف اور شاعر فرید ساجد لغاری نے کیا۔کتاب کی تقریب رونمائی 2اپریل 2017کو پرکھ ادبی سنگت کوٹ چھٹہ اور قندیل ادب نوتک مہمید کے اشتراک سے ایڈمور ہوٹل کوٹ چھٹہ میں منعقد ہوئی۔تقریب میں دنیا ئے ادب کی نامور شخصیات نے شرکت کی اور مترجم فرید ساجد لغاری پر سیر حاصل مقالے پڑھے ۔جن میں فرید ساجد لغاری کی علمی و ادبی اور مناجات معصومین کے سرائیکی ترجمے پربحث تھی۔جبکہ تقاریب کے دوسرے حصے میں سرائیکی اردو شعراء نے شاعری پیش کی۔تقریب کے پہلے حصے میں دلبر مولائی جبکہ دوسرے حصہ کی نظامت فضل عباس ظفر نے کی۔

دنیا ئے ادب کے نامور ادیب اور محقق و شاعر مولانا منطور آفاقی نے فرید ساجد کو بطور ترجمہ نگار،نقاد ،نثر نگار ،محقق اور عالم علم عروض ،عظیم قلم کار اور شاعر قرار دیا۔آپ نے کہا کہ فرید ساجد لغا ری نے علم عروض اپنے استاد محترم اکرم قریشی مرحوم سے سبقاََ پڑھا ۔مولانا منظور آفاقی نے اس موقع پر علم عروض کی آفادیت پر روشنی ڈالی۔اور اس حوالے سے فرید ساجد لغاری کی محنت شاقہ کو سراہا ۔سیاسی و سماجی شخصیت ملک رمضان جڑھ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے لیئے یہ خوشی کا موقع ہے کہ فرید ساجد جیسے عظیم محقق نقاد مترجم اور ادیب سے ملنے کا موقع ملا اور ان کے اعلیٰ خیالات کا مطالعہ نصیب ہوا۔

راقم الحروف (منشاء فریدی) نے فرید ساجد لگاری کی علمی اور ادبی خدمات پر تفصیلی مقالے میں کہا کہ” مناجات معصومین”کا منظوم سرائیکی ترجمہ سرائیکی ادب میں بیش بہا ء اضافہ ہے۔اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کی ترجمہ نگاری کی جس روشن روایت کا فرید ساجد لغاری نے آغاز کیا ہے اس کے اثرات دوردور تک جائیں گے اور سرائیکی دبستان اس سے معطر رہے گا ۔ترجمہ بالخصوص منظوم ترجمہ انتہائی مشقت طلب عمل ہے اس کے لیئے نا صرف محنت، لگن اور ہمہ وقت توجہ ضروری ہے۔بلکہ زبان ادب پر عبور لازمی امر ہے۔لوازمات شاعری پر مترجم شاعر عبور رکھتا ہوورنہ ترجمہ اپنی شیرینی افادیت اور معیار ضائع کر دیتا ہے۔

سرائیکی اور اردو کے نامور ادیب اور صحافی سید فرحت نقوی نے فرید ساجد لغاری کو عظیم شاعر قرار دیا اور مناجات معصومین کے سرائیکی میں منظوم ترجمے کو سراہا۔اور فرید ساجد کو منظوم خراج تحسین بھی پیش کیا۔

حسنین رضا خاکی نے مترجم فرید ساجد لغاری پر تفصیلی گفتگو کی اور منظوم خراج تحسین پیش کیا :
قرطاس قبیلہ میں ہے اک ظل الٰہی ، الفاظ میں کیا درس کی سوغات لیے ہے
ہر حرف ہے توحید کی قربت کا ذریعہ ، دامن میںمعصوموں کی مناجات لیے ہے
کیا طالب عرفان کی سوغات لکھی ہے ، ذہنوں کی فلاح کے لیے خیرات لکھی ہے

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ، ساجد نے جو منظوم مناجات لکھی ہے
معروف شاعر عباس صادر نے اردو کے نامور ادیب قاضی ابو المظہر شریف کا تحریر کیا ہوا مقالہ پڑھا جو فرید ساجد کی فنی و ادبی کاوش مناجات معصومین پر لکھا گیا تھا ۔مقالہ نگار نے فرید ساجد پر یوں خامہ فرسائی کی کہ مجھے اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب صاحب ترجمہ کی مختلف النوع ادبی سرگرمیوں کے بارے میں سنتا یا پڑھتا ہوں ۔علمی ادبی مرکز سے دور ایک پس افتادہ کوہستانی علاقے کے شاعر کو قسام ازل نے کیسی کیسی خوبیوں سے نوازا ہے۔صاحب موصوف اس زیر بحث کتاب (مناجات معصومین) کے علاوہ سرائیکی مجموعے سرور کائنات ۔ہیرے موتی ۔چنتے ۔بھوئیں تراما ںجیسی مقبول سرائیکی کتب کے خالق ہیں۔ان کی ایک اور قابل ذکر کتاب اکرم قریشی شخصیت و فن بھی ان کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔قاضی ابو المظہر شریف کے مضمون نے فرید ساجد لغاری کی فنی زندگی کا تقریبا احاطہ کر دیا ۔مذکورہ مقالہ ثابت کرتا ہے کہ فرید ساجد لغاری ہمہ جہت ادیب ہیں۔

متعدد کتابوں کے مصنف ۔شاعر۔صحافی ۔محقق اور سفر نامہ نگار دلبر مولائی نے فرید ساجد لغاری پر سرائیکی میں خاکہ بعنوان ”فرید ساجد دا چھوٹا خاکہ” پیش کر کے آپ کی تمام صفات کو یکجا کیا۔حاضرین نے دلبر مولائی کے پیش کیے گئے خاکے کو بے حد پسند کیا۔
دلبر مولائی کے خاکہ سے اقتباس نذر قارئین ہے:

سئیں فرید ساجد ساڈا سنگتی یار وی ہے۔تے ادب دا مٹھڑا منٹھار وی ۔۔۔استاد اکرم قریشی دے بعد ادب دا ا ستاد وی ۔۔ایہ من بھانونڑاں سجن ۔۔۔۔ یاریں دا یار ہے تے کجھ لوکیں واسطے کنڈا خار وی ہے۔ایہ کوہ سلیمان دا رو ہیلا وی ہے تے نَیںدا دامن واسی وی۔۔۔۔ انبیں دی چھاں تلے نہ آپ بہندے نہ ایندا ڈھولا ۔۔۔۔ٹاہلی دی ماندی چھاں کولوں وی پریں ہے۔۔۔البتہ کنڈے تے بیر داسایہ ملیا ہویا ہے۔ایندیاں بیریں اکثر جھوریاں رہندین۔۔۔۔لائی ۔لانڑاں ۔پھوگ ۔سینوار ۔پنیر وانگوں ایندی شاعری تشبیہیں تے استعاریںنال چتری لاتھی ہے۔پیہلوں شیت رج نہ کھادیاں ہوون لیکن کھمبیاں ضرور رج کھادیاں ہوسن۔تنقید اینجھی لکھدے جو ادب سوہنڑاں تھی ویندے البتہ بندے کوں مناون واسطے بھاہ پانڑیں کرنا پوندے۔۔۔۔۔۔! تقریب کا دوسرا حصہ محفل مشاعرہ پر مشتمل تھا۔جس میں سرائیکی ادب کے نمائندہ شعراء نے کلام پیش کیا ۔جس سے شرکائے محفل محظوظ ہوئے ۔شعراء نے خوب داد سمیٹی۔تقریب میں ساقی سمینوی،منظور حسین منظور،یٰسین صابر ،حفیظ انجم،عاشق صدقانی،اے ڈی عاشر،عقیل نقوی،حسنین خاکی،موسٰی خان ناصر،فہیم یاسر،گلزار حسین گلزار،شاہد راسب،رفیق گلشن،امداد ہمدرد،رانا امانت علی ،نعیم ثاقب،اے ڈی رضوان،عنبر بلوچ،منیر حسین درویش ،یٰسین صابر،حقنواز باقی اختر عبرت،ملک عمران جڑھ،ملک کامران جرھ،غلام شبیر بزدار کے علاوہ لاتعداد شعراء ادباء اور سماجی و عوامی شخصیات نے شرکت کی۔

Mansha Fareedi

Mansha Fareedi

تحریر : منشاء فریدی