بدلتے چہرے

Crying

Crying

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
گھر کے در و دیوار عزیز و اقارب کے رونے پیٹنے آہ و بکا اور بینوں سے گونج رہے تھے۔ چند گھنٹے پہلے جو گھر خوشیوں کا گہوارہ تھا موت نے اُس گھر کو ماتم کدے میں تبدیل کر دیا تھا۔ مرنے والا گھر کا واحد کفیل تھا اُس کی جوانی کی موت نے سب کو اُدھیڑ کر رکھ دیا تھا مرنے والامیرے دوستوں میں سے تھا اِس لیے میں بھی افسوس کے لیے آیا ہوا تھا مرنے والا 40 سالہ جوان بزنس مین تھا جو کروڑوں کا بزنس کرتا تھا نہایت غریب دیہاتی گھرانے کا یہ فرد سب کے لیے سایہ شفقت تھا 15 سال پہلے کسی دفتر میں چند ہزار کی نوکری شروع کرنے والا یہ عظیم آدمی چند ہی سالوں میں اپنا کاروبار کرکے کروڑوں میں کھیلنے لگا تو اِس نے سب سے پہلے اپنے بہن بھائیوں کو اپنے گائوں سے اپنے پاس بلایا پھر اپنے سسرالی رشتہ داروں اور باقی رشتہ داروں کو بلا کر اپنے کاروبار میں مختلف عہدوں پر لگایا جیسے جیسے اِس کا کاروبار ترقی کرتا گیا یہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو نوازتا گیا مزاجاً ایک نہایت شریف اور سخی انسان جس کا ایمان تھا کہ یہ ساری ترقی اور دولت اِن دوستوں اور رشتہ داروں کی وجہ سے ہے اِس لیے وہ اپنی اقربا پروری اور سخاوت کے دائرے کو اور مزید بڑھاتا گیا۔

چند ماہ پہلے جب بیماری نے اِس شخص کو گھیرا تو بہن بھائیوں اور سسرالی رشتہ داروں کے دو گروپ بن گئے اب دونوں گروپوں نے اپنی وفاداری اور قربت شو کرنے کے لیے ایک دوسرے کی مخالفت شروع کر دی اب انہوں نے ایک دوسرے پر گھنائونے الزامات لگانے شروع کر دیے اب یہ بیچارہ کبھی ادھر کبھی ادھر پنڈولم کی طرح جھولتا رہا ماں کے پاس بیٹھے تو وہ سچی لگے بیوی کے پاس جائے تو وہ سچی اِس پریشانی میں یہ میرے پاس بھی کئی دفعہ آیا رشتہ داروں کی اِس دھینگا مشتی نے اِس کو بہت زیادہ رنجیدہ کر دیا تھا بیماری بڑھتی گئی تو اِس قابل بھی نہ رہا کہ دفتر جاسکے اب دونوں گروپ اِس کی موت کا انتظار کرنے لگے کہ اِس کے بزنس کی وسیع و عریض امارت کے وہ ہی مالک اور حق دار ہیں اِن دونوں گروپوں کی لڑائی اور تلخ باتوں نے مرحوم کو اندر تک چیر ڈالا اِن کی مادیت پرستی دیکھ کر یہ بہت زیاد ہ افسردہ رہنے لگا ایک گروپ ایک بات کرتا تو دوسرا کوئی اور بات اِن باتوں کی وجہ سے مرحوم بہت زیادہ ٹینشن میں رہنے لگا BP انتہائی حدوں کو چھونے لگا رشتہ داروں کے رویوں اور بیماری نے مرحوم کو اندر سے کھوکھلا کر دیا کاروبار سے تو دن بدن توجہ ہٹتی گئی۔

Business Loss

Business Loss

جس سے کاروباری معاملات بھی خراب ہونے لگے یہاں تک کہ کامیاب کاروبار اب گھاٹے میں جانے لگا اچھے دنوں میں اخراجات بہت زیادہ ہو گئے تھے جب کاروبار نقصان میں جانے لگا تو اخراجات پورے نہ ہونے کہ وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے جسمانی بیماری کا روباری نقصانات اور گھریلو جھگڑوں نے مرحوم کی رہی سہی ہمت بھی توڑ دی اب مرحوم نے مختلف ڈاکٹروں نفسیاتی معالجوں اور عامل بابوں کے پاس جانا شروع کر دیا لیکن ریلیف کہیں سے بھی نہ ملا بہت بھاگ دوڑ اور کوشش کے بعد جب حالات اور جسمانی صحت میں سدھار نہ آیا تو شدید ڈپریشن اور مایوسی کے دورے پڑنے شروع ہوگئے غم، ناکامی، پریشانی، کاروباری نقصانات اور سب سے بڑھ کر اپنوں کے بدلتے رویوں سے دل برداشتہ ہو کر مرحوم نے شراب نوشی سے اپنے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کی اور پھر ہمیشہ کی طرح جو بھی اِس دلدل میں پھنسا وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ نشے کی دلدل میں دھنستا چلا گیا ۔ دن رات نشے میں دھت رہنے کی وجہ سے جسمانی صحت اور کاروبار کا ستیاناس ہو گیا۔

اب گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دوستوں یاروں رشتہ داروں سے ادھار مانگنا شروع کر دیا شروع میں چند لوگوں نے ادھار دیا پھر لوگوں نے ادھار دینے سے انکار شرو ع کر دیا اب لوگوں نے مرحوم کو Avoid کرنا شروع کر دیا اورجب بھی کوئی عروج سے زوال کا شکار ہوتا ہے تو یہ موت جیسی تکلیف ہوتی ہے جن لوگوں نے عروج اور دولت کا اچھا وقت دیکھا ہوا ہو۔ جب اُن پر مشکل ٹائم آتا ہے اور لوگ نظر انداز کرنا شروع کر دیتے ہیں تو یہ برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لوگوں کے ناروا سلوک اور توہین آمیز روئیے سے تنگ آکر مرحوم نے گھر سے نکلنا بند کر دیا دن رات شراب نو شی اور ڈپریشن نے مرحوم کو موت کی دہلیز پر لا کھڑا کیا اور جب ڈپریشن پریشانی حد سے بڑھتی گئی تو BP اتنا زیادہ بڑھا کہ و موت کی وجہ بن گیا آج ہم سب اِس اچھے انسان کی موت اور سوگ کے لیے یہاں اکٹھے ہوئے تھے اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔

Death

Death

مجھے صبح جب مرحوم کی موت کی خبر ملی تو میں فوری یہاں آگیا یہاں میرے جاننے والے زیادہ نہیں تھے میری مرحوم سے ہی دوستی تھی گھر والوں سے زیادہ جان پہچان نہیں تھی میں خاموشی سے ایک طرف کھڑا مرحوم کی باتیں اور اچھا وقت یاد کر رہا تھا مرحوم کے 5 بچے تھے اور ماں بھی زندہ تھی میں اُن بیچاروں کے نقصان اور دکھ کے بارے میں سوچ رہا تھا اور یہ بھی کہ موت کس طرح دبے پائوں آتی ہے اور انسان کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتی ہے زندہ چلتا پھرتا ہنستا مسکراتا انسان بے جان لاشے میں تبدیل ہو جاتا ہے جو لوگ زندگی میں اُس کے سامنے کھڑا ہو نے کی جرات نہیں کرتے وہ کس طرح اِدھر اُدھر جا رہے ہو تے ہیں میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ کسی نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا میں نے دیکھا تو میرے سامنے 25 سالہ نوجوان لڑکا افسردہ پریشان چہرے سے کھڑا تھا اُس نے اشارے سے مجھے ایک طرف جانے کو کہا اور ساتھ تعارف بھی کرایا کہ میں مرحوم کا چھوٹا بھائی ہوں۔

جب اُس نے اپنا تعارف کرایا تو میں فوری طورپر اُس کے ساتھ چل پڑا ایک کونے میں جا کر وہ رک گیا اور بولا جناب بھائی کے جانے کے بعد اب میں ہی اِس گھر اور کاروبار کا مالک ہوں اور آپ مجھے اب بھائی کی جگہ سمجھیں میں آپ کی بھرپور تابعداری اور خدمت کروں گا میں خاموشی سے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا آخر اُس نے اصل بات کہہ دی کہ بھائی جان آپ کے قریب تھے آپ میری مدد کریں اُن کی جا ئیداد اور بنک بیلنس اور کاروبار ی معاملات کیا تھے اُن کی تفصیلات کیا تھیں اب اُن سب کا میں مالک ہوں اور ہاں بھائی جان کی خاص بڑی گاڑی بھی اب میری ہے وہ اپنی بکواس کر رہا تھا اور اُس کی مادیت پرستی دیکھ کر میری کنپٹیوں میں آگ لگ رہی تھی میں نے اُس کی باتوں کو نظر انداز کر تے ہوئے اُس سے پو چھا جنازے کا وقت اور جگہ کیا ہے تو اُس نے میرے سوال کو نذر انداز کرتے ہوئے اپنی ہی باتیں جاری رکھیں مجھے اُس سے بیزاری شروع ہوگئی میں اُس سے جان چھڑائی اور واپس اپنی جگہ پر آگیا۔

Duplicity Face

Duplicity Face

اب ایک اور نوجوان میری طرف آیا اپنا تعارف کرایا کہ وہ مرحوم کا سالا صاحب ہے اب وہ مجھے ایک کونے میں لے گیا اور کہا مرحوم اپنے بھائی سے بہت ناراض تھے اِس کو کاروبار سے نکال دیا تھا مرحوم اِس کے رویے سے مرا ہے میں مرحوم کے ساتھ تھا مرحوم کے تمام کاروبار کا واحد مالک میں ہی ہوں اب اِس نے بکواس شروع کر دی میں اس کو بھی حیرت اور ناگواری سے دیکھ رہا تھا دوران ِ گفتگو اِس نے بھی مجھے بہت ساری ترغیبات دیں کہ میں صرف اُس کا ہی ساتھ دوں۔ مجھے اُس سے گھن آنی شروع ہوگئی۔ میں نے اُس سے پیچھا چھڑایا ہی تھا کہ ایک نوجوان لڑکی شاید اپنے خاوند کے ساتھ میری طرف آتی نظر آئی وہ شاید مجھے پہلے دو جوانوں سے باتیں کرے ہوئے دیکھ رہی تھی اِس انتظار میں تھی کہ کب میں آزاد ہوں اور وہ مجھ سے مل سکے۔ وہ میرے قریب آئی سلام کیا اور بتایا کہ وہ مرحوم کی بہن ہے اور ساتھ اُس کا خاوند ہے مجھے لگا یہ مرحوم کے حقیقی وارث ہیں اور اظہار دکھ کرنے آئی ہے لیکن جب اُس نے بھی وہی باتیں شروع کر دیں کہ میرے خاوند نے میرے بھائی کا بہت ساتھ دیا ہے کاروبار سنبھالنے کی اصل اہلیت میرے خاوند میں ہے۔

تو مجھے اپنے پائوں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی بہن بار بار اپنے خاوند کی خدمت اور تعلیمی قابلیت کا ذکر کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ لالچ بھی کہ میں اُن کا ہی ساتھ دوں جیسے ہی یہ گئے تو سالا صاحب اپنے والد صاحب کو لے کر آگئے کہ میرے والد صاحب بھی میرے ساتھ ہیں کیونکہ مرحوم کا کاروبار مختلف جگہوں پر پھیلا ہوا تھا کسی ایک سائٹ کے انچارج سسر صاحب بھی تھے اُنہوں نے آتے ہی اپنی خدمات اور کاروبار کو ترقی دینے اور عروج پر پہچانے میں اپنی شاندار خدمات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا ۔ میں شدید حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ اِس پاگل بوڑھے کو یہ غم نہیں تھا کہ اُس کی بیٹی بیوہ ہوگئی ہے بلکہ یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ کاروبار کی مسند پر قبضہ کیسے ہوسکتا ہے بوڑھا اور بیٹا اپنی بکواس کر رہے تھے اور میں مر حوم کی لاش کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ زندگی میں انسان جن گھر والوں اور رشتہ داروں کے لیے جائز ناجائز کی سرحدیں عبور کرتا ہے وہ اُس کے جانے کے بعد اُس کی جائیداد پر گدِھوں کی طرح اِس طرح جھپٹ پڑتے ہیں کاش مرحوم ایک بار اپنے عزیزوں کے بدلتے چہروں کو دیکھ سکتا۔

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956

Crying

Crying