نونہالِ قوم کا اغوا سنگینی کا ادراک کیجئے

Child Abduction

Child Abduction

تحریر: ایم ایم علی
ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ 6 ماہ کے دوران لاہور سمیت پورے پنجاب سے 600 سے زائد بچے لاپتہ ہوئے ان میں سے کچھ تو گھروں سے بھاگے اور زیادہ تر بچوں کوا غوا ء کیا گیا بچوں کے اغواء کی وارداتیں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں ،ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹر حیدر اشرف نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں انکشاف کیا کہ ان بچوں میں سے تقریباً 41 فیصد بچے ایسے ہیں جو خود گھروں سے بھاگے ہیں اور 59 فیصد کو اغوا کیا گیا، اغواء ہونے والے بچوں کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے کچھ بچوں کو ان کے رشتے داروں نے اغوا کیا کچھ تاوان کیلئے اغوا ہوئے کچھ کو جنسی استحصال کیلئے اغوا کیا گیا اور کچھ آپس کی دشمنی کی بنا پر اغوا ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ ان میں سے بہت سے بچوں کو بازیاب کروا کے ان کے والدین یا ان کے خاندانوں کے حوالے کیا جاچکا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی باتیں اپنی جگہ درست سہی لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو اغوا کیا گیا، چاہے ان سب واقعات کے پیچھے وجہ جو بھی رہی ہو ، کیااتنی بڑھی تعداد میں بچوں کا اغوا ہونا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی اور نااہلی نہیں ؟بچوں کے اغوا ء پر سپریم کورٹ کا از خود نوٹس اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے سپریم کورٹ اور وزیر اعلی پنجاب کے نوٹس کے باوجود بچوں کے اغوا کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ پورے پنجاب سے بچوں کی گمشدگی کی خبریں آ رہی ہیں اس معاملے پر پولیس کی روایتی بے حسی بھی جاری ہے لا پتہ ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ پولیس ان سے تعاون نہیں کر رہی اور نہ ہی لاپتہ ہونے والے بچوں کی ایف آئی آر درج کی جارہی ہیں بس ایک سادہ کاغذ پر درخواست لے کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔

Lahore

Lahore

قارئین کرام! میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں پچھلے چھ ،سات ماہ میں 300 سے زائد بچے اغوا ء یا گمشدہ ہوئے ہیں اس کے علاوہ راولپنڈی سے 62 ،فیصل آباد سے 27 ملتان سے25 اور سرگودھا سے 24 بچے اغواء یا لاپتہ ہوئے ہیں ،بچوں کی گمشدگی کے یہ اعدادو شمار حکومت کی کارکردگی پر بھی ایک سوالیہ نشان ہیں بچوں کے اغواء یا گمشدگی کے واقعات اس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ حکومت کی ترجیحات شاید کچھ اور ہیں، حکومت کو شاید سڑکوں پلوں ،میٹرواور اورنج جیسے پروجیکٹ سے ہی فرصت نہیں کہ وہ کسی اور مسئلے کی طرف بھی توجہ دے سکیں ان سب پراجیکٹس کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن اس قوم کے مستقبل کے معماروں کی حفاظت بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے محض زبانی کلامی ایکشن لینے سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں بلکہ یہ معاملہ دن بدن سنگین نوعیت اختیار کرتا جارہا ہے اور حکومت کو بھی اس معاملے کی سنگینی کو سمجھنا ہو گا ۔قارئین! اس بات میں کوئی شک نہیں کے پنجاب میں دوسرے صوبوں کی نسبت حالات کافی بہتر ہیں اور دوسرے صوبے کے لوگ بھی وزیر اعلی پنجاب کے اقدامات اور فیصلوں سراہتے نظر آتے ہیں۔

لیکن اب اس صوبے کو بھی لا قانونیت اپنی گرفت میں لے رہی ہیں اور بچوں کے اغوا کے ساتھ ساتھ دیگر وارداتوں میںاضافہ دیکھنے میں آ رہاہے ،بحرحال اس وقت بچوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ سنگین نوعیت اختیار کرچکاہے اور د ن بدن عوام میں بھی اشتعال بڑھتا جارہا ہے کئی مقامات پر لوگوں کے ہجوم نے بچوں کے اغواء کے شک پر کئی افراد کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ اس مسئلے پر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری تو بنتی ہے ہی، والدین کو بھی بچوں کے معاملے پر لاپرواہی نہیں برتنی چاہیے اور نہ صرف اپنے بچوں کا خیال رکھنا چاہیے بلکہ اپنے ارد گرد بھی نظر رکھنی چاہیے والدین کو چائیے کہ کمسن بچوں کو اکیلے باہر نہ جانے دیں اس کے علاوہ بچوں کو مشکوک افراد سے دور رہنے کی تلقین کریں اور کوئی بھی مشکوک شخص نظر آئے تو اسے خود سزا دینے کی بجائے فوراً قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع دیں اور اس کے علاوہ اگر کوئی لاوارث بچہ دیکھیں تو 15 یا 1121 پر اطلاع دیں۔

Child Protection

Child Protection

ویسے تو ہمارے ملک میں بہت ساری این جی اوز اور رفاحی ادارے بے آسرا اور بے سہارا بچوں کیلئے کام کر رہے ہیں مگر چائلڈ پروٹیکشن بیورو لاوراث اور بے آسرا بچوں کی فلاح و بہبود میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ مئی 2005 میں پنجاب میں قائم ہونے والا چائلڈ پروٹیکشن بیوروایک منفرد اور انتہائی موثر انداز میں کا م جاری رکھے ہوئے ہے یہ ادارہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ما تحت کا م کر رہا ہے ،اس ادارے نے 1121 کے نمبر سے ہیلپ لائن بھی متعاف کروا رکھی ہے ، اور یہ ہفتے کے سات دن چوبیس گھنٹے کام کرتا ہے۔

اس ادارے کا بنیادی مقصد بے آسرا ،بے سہارا،اور لاوارث بچوں کو آسرا دینا اور ان کی فلاح بہبود اور بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے یہ ادارہ نہ صرف ان بچوں کو اچھی رہائش اور اچھا کھانا پینا مہیا کرتا ہے ،بلکہ ان کی تعلیم و تربیت پر بھی بھر پور توجہ دی جا تی ہے ،صوبہ بھر میں چلڈرن کورٹس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔اس ادراے کی چیر پرسن محترمہ صباء صادق صاحبہ ہیں،محترمہ ایک متحرک سماجی اور سیاسی شخصیت ہیں ، وہ متعدد با ر پنجاب اسمبلی کی ممبر بھی رہ چکی ہیں ،وہ اسمبلی کے اندر بھی خواتین اور بچوں کوحقوق دلانے کیلئے آواز اٹھاتی رہتی ہیں ،محترمہ نے بتایا کہ ان کے ساتھ جو یوتھ ٹیم کام کر رہی ہے وہ بھی بلا معاوضہ اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے ،یہ جان کر مجھے مسرت کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوئی کہ آج کے اس دور میں جب ہر شخص پیسے کی دوڑ میں شامل ہے ،ایسے دور میں محبت انسانیت سے سر شار اس طرح کے لوگ قابل ستائش اور قابل تعریف ہیں ۔اچھے لوگوں کی مثال اس موم بتی کی مانند ہے جو خود تکلیف اٹھا کر بھی دوسروں کو روشنی مہیا کرتی ہے۔

یہ ادارہ اب تک کئی گمشدہ بچوں کو ان کے خاندانوں سے ملوا چکا ہے اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں لاپتہ ہو نے والے بچوں کے خاندانوں سے بھی یہ ادارہ مسلسل رابطے میں ہے محترمہ صبا صادق صاحبہ اس ادارے کو مزید منظم اور موثر بنانے کی خواہاں نظر آتی ہیں ،اس سلسلے میں خادم اعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور میاں حمزہ شہباز ان کی بھر پور معاونت کر رہے ہیں ۔اس طرح کے ادارے ملک کے دوسرے صوبوں اور شہروں میں بھی قائم کئے جانے چاہیے ۔ اس کالم کی وساطت سے میںحکومت وقت سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اس ادارے کو مزید وسعت دینے اور فعال بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت بچوں کے اغواء میں ملوث اور بچوں سے جبری مشقت اور جبری گداگری کرانے والے عناصر سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹے ،بچے کسی بھی ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہوا کرتے ہیں۔

M. M Ali

M. M Ali

تحریر: ایم ایم علی