بچہ چور

Child Thief

Child Thief

تحریر: عمارہ کنول
مارو پکڑو جلا دو یہ بچے اٹھانے والی ہے پولیس جو بلاؤ. ایسی آوازیں کان میں پڑتے ہی بے اختیار گلی میں کھیلتے سات سال کے بھتیجے کو آواز دے کر گھر واپس بلا لیا .. پھر تجسس نے سر اٹھایا کہ کون ہے میں بھی تو دیکھوں بچہ اٹھانے والی ہوتی کیسی ہیں ذہن میں اک ہٹی کٹی چالاک تیز طرار عورت کا تصور لیے جم غفیر ہجوم کو چیرتے جب میں وہاں پہنچی اور اس مفلوک الحال بے مایہ عورت کو بری طرح پٹتے دیکھا ..عورت قریب تیس سال کی ہوگی پتلے نقوش حال ہی میں چھیدی گئی ناک..زخمی پپڑی جمے لب پچھلے دو گھنٹوں سے بپھرے اپنی نامکمل خواہشات کا انتقام اس حواس باختہ سی عورت سے لیتے ةہئے دھڑا دھڑ پیٹ رہے تھے اتنے میں صبح اپنے شوہر سے مار کھائی عورت پٹرول لے آئی پہلے تو اس نے بنا پٹرول اس عورت کو جلانے کی کوشش کی جو اپنا بچاؤ نہ کر سکتی تھی اور نہ ہی کر پا رہی تھی پھر پٹرول چھڑکنے ہی والی تھی۔

اتنے میں جانے کہاں سے نیلا ڈوپٹہ اوڑھے ایک لڑکی آئی جسکا نام بعدازاں فضا معلوم ہوا. اور اس مظلوم کی ڈھال بن گئی اس کو دیکھ کہ میں بھی سکتے سے باہر آئی زور سے چلائی بس کرو تمھیں کیا حق ھے کسی کو جان سے مارنے کا.ہجوم میں خاموشی چھا گئی اس علاقہ میں حال ہی میں شفٹ ہونے کی وجہ سے کوئی نہیں جانتا فضا نے اس عورت کا ہاتھ پکڑ کر ھجوم سے باہر نکالا دوسرا ہاتھ میں نے پکڑا سدھا ریہوئے بندر کی طرح ہجوم ہمارے پیچھے چل پڑا۔میں نے اپنی دوست صبیحہ کو فون کیا مگر سرکاری فرائض سرانجام دینے کی وجہ سے وہ آ تو نہیں پائی تاہم اس سے ہونے والی گفتگو نتجہ خیز ثابت ہوئی.

ہجوم کو تسلی ہوئی یا مجھے کوئی آفیشل سمجھا گیا نہیں خبر .. تاہم اس حواس باحتہ ادھ مری عورت کو لیکر تھانے پہنچے سیدھا ایس ایچ او کے پاس ٫ایک مشہور اخبار کے ایڈیٹر صاحب کو حفظ ما تقدم کے طور پے راستے میں میں کال کر چکی تھی لیکن ویوز نام ہی کافی ہے کی طرح نام اور حوالہ ہی کافی نکلا.. ہمیں ایک اے ایس آئی کے ہمراہ ایک کمرے میں بٹھا دیا گیاجسے سرائیکی کی سمجھ تھی اپنے تیئں ہم اسے سرائیکی سمجھ بیٹھے تھے بات چیت شروع ھوئی وہ کسی نامعلوم نافہم الفاظ کا ملغوبہ ہماری سماعتوں میں انڈیلتی .دو یا تین باتیں قطیعت بھرے لہجے میں بول کے پہر سے چپ سادھ لیتی لاکھ کوشش کے بعد وہگنے چنے الفاظ بولتی جن میں سے کچھ سمجھ آتا کچھ نہیں ایس ایچ او صاحب نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ سندھی ہے اب نئی تلاش شروع ھوئی کہکوئی سندھی کو بلاؤ بصد تلاش یہ کوشش بے ثمر رہی پھر ذہن میں اک جھماکہ سا ہوا ک ہامی کراچی میں پیدا ہوئی ان کے دور کے عزیز کا نمبر ہے جو لار آکہ بس گئے ہیں سو کمپیوٹر مھاشے نے نجم بھائی کو فون لگایا مختصرأ صورتحال سے آگاہ کیا مطلو بسوال سمجھا کر فون اس نیم پاگل کو تھما دیا جو خالی خالی نظروں سے کبھی مجھے کبھی فضا کو دیکھ رہی تھی تین منٹ بعد اسپیکر جو آن تھا میں سے اردو میں مانوس زبان آئی اس سے فون واپس لے لو۔

Police Station

Police Station

علم ہوا کہ ان خاتون کا نام بیگم ہے تھرپارکر کے کسی گوٹھ کا بتاتی ہے شوہر کا نام ارباب .ماں باپ مر چکے بچے بھی نہیں ھیں .. اور وہ سندھی نہیں بروھی ہے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو جوڑکر مدعا بنایا گیا اب مسئلہ یہ تھا کہ بیگم کو چھوڑ کر کیسے جائیں کیونکہ تھانے کا لیڈیز عملہ کسی اور جگہ ڈیوٹی پے معمور تھا اور بیگم کسی صورت ھمیں چھوڑنے پے راضی نا تھی فضا کا ہاتھ تو وہمسلسل مضبوطی سے پکڑے ہوئی تھی میں اسے اپنے گھر نہیں رکھ سکتی شوہر نہیں رکھنے دیگافضا نے جیسے خود کلامی کی ..۔

تو اسے پولیس اسٹیشن رہنے دو میں نے رائے دی … یہاں شاید اس کی عزت محفوظ نہیں رہے فضا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے میں بھی آبدیدہ ھو گئی.ان پولیس والوں کی نظریں مجھے کچھ اچھی نہیں لگ رہی.. تم ٹھیک کہہ ہوجیسی بھی ہے مگرھے تو ایک عورت ہی مظلوم سی کمزور سی شائد بچے پیدا نہ کرنے کے جرم میں شوہر نے نکال دیا ہوگا اور ماں باپ نہیں تو کفالت سے تنگ آکر بھائی نے اور بھابھی نے. . جو بھی اسکا ماضی تھا دردناک تھا تبھی تو بیگم یہاں پہنچی تھی بے توقیر سی بے وقعت سی..اس سے پہلے کہ ہماری جذباتیت کچھ اور رنگ لاتی ..اتنے میں کمرے میں اک آواز گونجی.. اس کو واپس لے گئے تو ہجوم اسے مار دے گا اسے پولیس اسٹیشن رہنے دیجے ٹاؤن کے لوگ کہہ رہے تھے اگر ھمارے بچوں کو کچھ ھوا تو ذمہ دار ی ہم دونوں ھوں گی.آپ کون .میں نے پوچھا۔

Save Life

Save Life

میرا نام عثمان ھے میں بھی ٹاؤن سے آپ کے پیچھے آیا ھوں کہ آپ اسے کہیں چھوڑ نہ دیں اجنبی نے تعارف کروایا . پھرہوش کے ناخن لیے گئے پولیس سے پروانہ سپرداری بنوایا اسٹیمپ لگوائی اور بیگم جو اب کافی مطمئن لگ رہی تھی کہ اتنے زیادہ افراد یہاں بھی ہیں مگر کوئی اسے مار نہیں رہا کو چھوڑکر گھر کی راہ لی .. ٹاؤن کے سرکرد?ہافراد کو کارکردگی سنائی پہلے فضا کا گھر دیکھا پھر ھمارے گھر جھاں بجلی جیسی عظیم وناپید نعمت میسر تھی آگئے .. پھرتو جیسے تجسس کی ماری خواتین کا تانتا ہی بندھ گیا.. فردأفردأ سب کو حسب مقدور تسلی دی رپورٹ کی کاپی دکھائی.. ساری رات میں سو نہیں سکی کہ ہم نے غلط کیا یا صحیح . جان بچا لی پر کہیں عزت خطرے میں تو نہیں ڈال دی؟؟؟؟؟؟؟؟۔

تحریر: عمارہ کنول