بچوں کی تربیت اور ہمارا مستقبل

Child Abuse

Child Abuse

تحریر: روہیل اکبر
آئے روز معصوم بچوں کے ساتھ زیادتیوں کی خبر پڑھتا ہوں تو دل دکھتا ہے کہ کیسے بھیڑیے نما انسان معصوم بچوں کو پل بھر میں مسل دیتے ہیں بچے کبھی انتقام کا نشانہ بن جاتے ہیں تو کبھی کسی کی ہوس کا شکار بن جاتے ہیں اور تو اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم ،بے راہ روی اور بلخصوص نوجوان نسل کا اپنی منزل سے ہٹ جانہ بھی ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے ہاں بچہ ان تمام برائیوں اور بے راہ رویوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اگر والدین بچے کی تربیت بہتر اور اچھے ماحول میں کریں اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کوو قت دیں ان سے دوستی رکھیں اپنی بیٹیوں سے پیار سے بات کیا کریں اپنے بیٹوں کے ساتھ کھیلا کریں اور ثابت کریں کہ آپ ہی انکے بہترین اوراچھے دوست ہیں اگر آپ یہ نہ کرسکے تو پھر یاد رکھیں کہ بچوں نے دوست بنانے ہی ہوتے ہیں اور ہمارا یہ معاشرہ ان بچوں کو بہت برے دوست پیش کرتا ہے جو اچھے کام تو تنہائی میں کرتے ہیں اور برے کام مل بیٹھ کر سرانجام دیتے ہیں بچے چونکہ معصوم ہوتے ہیں اور جس طرف انکا ذہن ایک بار لگ جائے پھر ان میں تبدیلی بڑی مشکل سے پیدا ہوتی ہے اس لیے والدین بچے کی نشونما سمیت اسکی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اگر والدین بچوں سے پیار اور دوستی نہیں رکھیں گے تو پھر بچوں کی تربیت کسی اور ہاتھ میں چلی جائیگی اور یہ ہاتھ ایسے ہوتے ہیں جو بچوں کے اخلاقی بگاڑ کے ساتھ ساتھ انہیں گھر والوں سے بھی دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

غربت کو بہانہ بناکر بچوں سے دوری ،مار کٹائی اور طعنہ زنی بزدل اور کمزور والدین کی نشانی ہوتی ہے جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بچوں میں محرومی اور احساس کمتری پیدا کرتی ہے پھر ایسے بچوں کا دل اور دماغ ایک ساتھ کام نہیں کرتا پڑھائی سے عاری اور کند ذہن بن جاتے ہیں والدین کی عدم توجہ اور مارپیٹ میں جوان ہونے والا بچہ کبھی بھی معاشرے کا مفید شہری ثابت نہیں ہوتا اور بلخصوص ایسے والدین کی اولاد جو ہر وقت اپنی محرومیوں کا ذکرکرتے رہتے ہوں اور ناجائز دولت اکٹھی کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہوں اور پھرانکے بچوں کی دوستیاں بھی باہر ہوں تو پھر ایسے بچے کسی نہ کسی کے ہاتھوں کھلونا بن کر خوفناک انجام سے دوچار ہوجاتے ہیں اس لیے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل اور انہیں ایک اچھا انسان بنانے کے لیے انہیں اپنے ماں باپ کی شکل میں بہترین دوست مل جانے چاہیے کیونکہ بچوں کی کردار سازی میں سب سے بڑا کردار والدین کا ہے اور جب معاشرے میں ایک بچہ تہذیب ،ادب اور شائستگی کے ساتھ اعلی پوزیشن حاصل کرکے کامیاب زندگی کی شروعات کرتا ہے تو یہ اس بچے کی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ ان والدین کی کامیابی ہوتی ہے جن کی تربیت کی وجہ سے بچہ کامیاب انسان بنا ہمارے معاشرے میں بھی واضح تفریق ہے ایک وہ طبقہ ہے جو پڑھا لکھا ہونے کے ساتھ ساتھ باشعور بھی ہے جو سمجھتا ہے کہ بچے کی تربیت کیسے کرنی ہے دوسرا طبقہ وہ ہے جو پیسے کے بل بوتے پر اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں ،تیسرا طبقہ غربت میں اپنے بچوں کی تربیت کرتا ہے۔

Raising Children

Raising Children

چوتھا طبقہ جہالت میں اپنے بچوں کو پروان چڑھاتا ہے اور پانچوں طبقہ کم تعلیم یافتہ اور محدود وسائل کی بدولت اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہے مگر ان میں کامیاب وہی طبقہ ہے جو اپنے بچوں کی تربیت دوستی کے دائرہ میں رہ کرے زیادہ سختی اور مار پیٹ بچوں کو باغی بنا دیتی ہے بلخصوص تعلیم کے معاملہ میں والدین کی اکثریت بچوں پر سختی کرکے انہیں ذہین اور سمجھدار بنانے کی بجائے رٹا لگانے والا طالبعلم بنادیتے ہیں ہمارے دیہاتوں اور شہروں میں بچوں کی تربیت کے حوالہ سے زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے جبکہ بعض گھروں میں بچوں پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کے لیے تشد د بھی کیا جاتا ہے ہمارے اکثر گھروں میں معمولی معمولی غلطیوں پر بچے کو طعنے دیے جاتے ہیں اور اسکی خامیاں دوسرے کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں ہم اپنی دانست میں یہ ایک اچھا اقدام کررہے ہوتے ہیں کہ بچہ اپنی بے عزتی محسوس کرکے غلط کاموں سے باز آجائیگا مگر ہم یہ بہت براکررہے ہوتے ہیں بچے اس کا ہمیشہ الٹ اثر لیتے ہیں ہمیں بچوں کی غلطیوں کو سدھارنے کے لیے پیار ،محبت اور مثالوں سے کام لینا چاہیے بلکہ انکی تعلیمی سرگرمیاں تیزاور بہتر بنانے کے لیے انہیں انعام کالالچ دیں اور انعام میں ہمیشہ وہ چیز رکھیں جو بچے کو پسند ہو اس طرح بچے کے اندر شوق بھی پیدا ہو گا اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اسے انعام کی اہمیت کا بھی اندازہ ہو گا۔

بچے کی ہر اچھے کام میں تعریف اور کھل کر حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اس سے بچے میں کام کی دلچسپی اور آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہوتی ہے والدین کو چاہیے کہ بچے کے رول ماڈل خود بنیں نہ کہ دوسروں کے والدین کی مثالیں پیش کریں مگر ایسے والدین جو اپنے بچوں کی تربیت بہتر نہیں کررہے انہیں چاہیے کہ وہ ایسے بچوں کے والدین کو اپنا رول ماڈل بنائیں جن کے بچے اعتماد کی دولت سے مالا مال اور سکول میں بہتر پوزیشن پر آتے ہوں یہاں میں ایک بات سب کے گوش گذار کردوں کہ والدین بننا کوئی بڑی اور بہادری کی بات نہیں ہوتی اصل میں بہادری اور کارنامے والی بات یہ ہے کہ آپ نے اپنے بچوں کی تربیت کتنے اچھے ماحول میں کی ہے کیاآپ نے اپنے بچوں کو معاشرے کا مفید شہری بنانے میں بھی کوئی کردار ادا کیا ہے یا پھر وہ خود ہی کسی خود رو جنگلی جھاڑی کی طرح بڑھتا رہا اور معاشرے کے ناسوروں کو اپنا رول ماڈل بنا کر انکے نقش قدم پر چل کر اپنی راہیں خود ہی متعین کرے۔

کبھی خود تکلیف میں تو کبھی کسی کو تکلیف میں رکھے اور پھر انجام وہی ہوجو ہمارے معاشرے میں برے لوگوں کا ہورہا ہے اس لیے والدین اپنے بچوں کی تربیت میں بھر پور کردار ادا کریں انہیں پیار دیں ان سے دوستی کی پینگیں چڑھائیں یہ والدین کی سب سے بڑی اور پہلی ذمہ داری تاکہ آنے والے وقت میں انکے بچے بھر پور اور مفید شہری کے طور پر اپنی زندگی گذار سکیں جو والدین ان باتوں سے آشنا نہیں انہیں چاہیے کہ وہ کسی سے سیکھیں اور جن کو یہ باتیں معلوم ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں اپنے دوستوں،عزیزوں اور رشتہ داروں کو سمجھائیں بچے ہمارا آنے والا کل ہیں جن کے مستقبل سے ہم نے بڑی امیدیں وابسطہ کررکھی ہیں ماضی تو ہم نے روتے پیٹتے گذار ہی لیا اب ہمیں اپنے مستقبل کی فکرکرنی چاہیے اور آج کے بچے ہمارا مستقبل ہیں۔

Rohail Akbar Logo

Rohail Akbar Logo

تحریر: روہیل اکبر
03004821200