بالغ اولاد کی شادی کرنے میں تاخیر مت کرو

Marriage

Marriage

تحریر : افضال احمد
بعض لوگ کنواری لڑکیوں کو بالغ ہونے کے باوجود بھی کئی کئی سال بٹھائے رکھتے ہیں اور محض ناموری کے سامان کے انتظار میں ان کی شادی نہیں کرتے’ حتیٰ کہ بعض بعض تیس تیس اور کہیں چالیس چالیس برس کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں اور اندھے سرپرستوں کو کچھ نظر نہیں آتا کہ اس کا کیا انجام ہو گا؟ حدیثوں میں جو اس پر وعید آئی ہے کہ اگر اس صورت میں عورت سے کوئی لغزش ہو گئی تو وہ گناہ باپ پر لکھا جاتا ہے’ یا جو بھی باپ کے قائم مقام مثلاً ذی اختیار ہو اس پر بھی لکھا جاتا ہے۔ کسی کو اس وعید کا خوف نہ ہو تو دنیا کی آبرو کو دنیا دار بھی ضرور سمجھتے ہیں’ سو اس میں اس کا بھی اندیشہ ہے چنانچہ کہیں حمل گرائے گئے ہیں’ کہیں لڑکیاں کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہیں’۔

اگر کسی شریف خاندان میں ایا نہ ہو تب بھی وہ لڑکیاں ان سرپرستوں کو تو دل ہی دل میں کوستی ہیں اور چونکہ وہ مظلوم ہیں’ اس لئے ان کا ”کوسنا” خالی نہیں جاتا۔ ان لوگوں کو یہ بھی شرم نہیں آتی کہ خود باوجود بوڑھے ہو جانے کے ایک بڑھیا کو اس لڑکی کی ماں ہے خلوت میں لے جا کر اس کے ساتھ عیش و عشرت کرتے ہیں اور جس غریب مظلوم کی عیش کا موسم ہے وہ پہرہ داروں کی طرح نوکرانی کے ساتھ ان کے گھر کو چوکسی کرتی ہیں’ کیسا بے ربط خبط ہے۔

اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جس انتظار میں یہ ٹال مٹول کی جاتی ہے وہ بھی نصیب نہیں ہوتا’ یعنی سامان ‘ زیور اور فخر کے لئے وہ سرمایہ بھی میسر نہیں ہوتا اور مجبوری میں ”جھک” مار کر خشک نکاح ہی کرنا پڑتا ہے’ پھر کوئی ان سے پوچھے کہ دیر کرنے میں تو اور بھی زیادہ بدنامی ہے میاں! اتنے دن بھی لگائے اور پھر بھی خاک نہ ہو سکا’ لڑکی کو اگر ایسی ہی دینے کا شوق ہے تو نکاح کے بعد دینے کو کس نے منع کیا ہے؟ اگر عام دعوت کرنے کا شوق ہے تو دعوت کے ہزار بہانے ہر وقت نکل سکتے ہیں’ یہ کیا فرض ہے کہ سارے ارمانوں کی اسی مظلومہ پر مشق کی جائے’ یہ بالکل صریح ظلم اور برا عمل ہے حدیث میں آتا ہے ”اگر تمہارے پاس ایسا شخص آئے جس کے اخلاق اور دین داری تم کو پسند ہو تو اپنی لڑکی کا نکاح اس سے کر دو’ ورنہ زمین میں فتنہ اور فساد پھیلے گا”۔ لیکن والدین ہیں کہ عقل کو ہاتھ مار ہی نہیں رہے۔

Relationship

Relationship

بعض لوگ یہ عذر کرتے ہیں کہ کہیں سے موقع کا رشتہ ہی نہیں آتا تو کیا کسی کے ہاتھ پکڑا دیں؟ یہ عذر اگر واقعی ہوتا تو صحیح تھا’ یعنی سچ مچ اگر موقع کا رشتہ نہ آتا تو واقعی یہ شخص معذور تھا’ لیکن خود اسی میں کلام ہے کہ جو رشتے آتے ہیں کیا وہ سب ہی بے موقع ہیں؟ بات یہ ہے کہ بے موقع کا مفہوم خود انہوں نے اپنے ذہن میں تصنیف کر رکھا ہے’ جس کے اجزا یہ ہیں’ حسب و نسب بہترین ہو’ اخلاق جنید بغدادی جیسا ہو’ علم میں بوعلی سینا کا مثل ہو’ حسن میں فلمی ہیرو کا ثانی ہو’ ثروت و ریاست میں وزیر اعظم کے ہم پلہ ہو” گویا کہ سب کچھ ایک ہی شخص میں ہو’ ایک ہی شخص میں تمام صفات کا ہونا شاذو نادر ہے تو کیا ہو ہی نہیں سکتا۔

جن صفات کو جس درجہ میں تم دوسروں میں ڈھوندتے ہو تم کو جس شخص نے لڑکی دی تھی جس کی بدولت آج اپنی لڑکی کے باپ بن کر یہ جوانیاں دکھا رہے ہو’ کیا اس شخص نے تمہارے لئے ایسی ہی تفتیش و تحقیق کی تھی؟ اگر وہ ایسا ہی کرتا تو تم کو عورت ہی میسر نہ ہوتی’ اس نے ایسا نہیں کیا تو جب اس نے ایسا نہ کیا تو تم نے یا تمہارے باپ نے دوسرے مسلمان بھائی کی بدخواہی کیوں کی؟ کہ باوجود تمہارے اندر ان اوصاف کے پورے طور پر مجتمع نہ ہونے کے اس کی لڑکی پر نکاح کے ذریعہ قبضہ کر لیا جو چیز تم اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ دوسروں کے لئے کیوں نہیں پسند کرتے؟ اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ دوسرے یہ کہ جب تم اپنی دختر کے لئے ان صفات کا شوہر تلاش کرتے ہو انصاف کرو! تم نے جب اپنے لڑکے کے لئے کسی کی لڑکی کی درخواست کی تھی یا کرنے کا خیال ہے کیا اپنے صاحبزادہ میں بھی یہ صفات اسی درجہ کی دیکھ لی’ یا دیکھنے کا ارادہ ہے؟۔

آج کل رائے یہ ہے کہ شادی جلدی ہونی چاہئے’ کیوں کہ اب وہ عفت و دیانت طبیعتوں میں نہیں رہی جو پہلے تھی’ اب زیادہ ضبط کی ہمت نہیں ہوتی۔ حضور اکرمۖ نے فرمایا: اے علی! تین چیزوں میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے: ”نماز جب اس کا وقت آجائے’ اور جنازہ جب کہ تیار ہو جائے’ اور بے نکاحی لڑکی کا رشتہ جب اس کو کفو مل جائے”۔ اس حدیث میں وجوبِ تعجیل (جلدی نکاح کرنے) کو نما زکا قرین قرار دیا ہے۔ مسلمانوں اپنے گریبانوں میں جھانکوں کہ تم کس عذاب کو دعوت دے رہے ہو؟۔

Twice Sister Marriage

Twice Sister Marriage

اپنے دو لڑکوں یا دو لڑکیوں کی شادی جہاں تک ہو سکے ایک ساتھ مت کرو’ کیونکہ بہوئوں میں ضرور فرق ہو گا’ دامادوں میں ضرور فرق ہو گا’ خود لڑکوں اور لڑکیوں کی صورت میں بہت باتوں میں فرق ہو جاتا ہے اور لوگوں کی عادت ہے تذکرہ کرنے کی اور ایک کو گھٹانے اور دوسرے کو بڑھانے کی’ اس سے خواہ مخواہ دوسرے کا جی برا ہوتا ہے۔ یہاں میں ایک واقعہ جو میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا آپ کو سنانا بہتر سمجھتا ہوں۔ میرے بزرگ نے مجھے بتایا کہ ایک بہت ہی نیک بزرگ انسان تھا جو ہر وقت اللہ کے ذکر میں مصروف رہتا تھا کبھی اُس نے گناہ نہیں کیا تھا’ خوف خدا بہت تھااُس کے دل میں’ اُس بزرگ کو بہت پیاری موت آئی’ جب وہ بزرگ فوت ہوئے تو قبر کے عذاب میں مبتلا ہو گئے حالانکہ اُنہوں نے پوری زندگی گناہ نہیں کیا تھا’ پھر اپنے بیٹے کے خواب میں آئے اور فرمایا کہ میں نے اپنی پوری زندگی گناہوں سے دور رہ کر گزاری لیکن اپنی جوان بیٹی کی شادی کی طرف دھیان نہیں دیا جس کی وجہ سے میں قبر کے عذاب میں مبتلا ہو گیا ہوں’ بزرگ نے اپنے بیٹے کو خواب میں حکم فرمایا کہ اپنی بہن کی شادی جلد از جلد کر دو تا کہ میرے اوپر جو قبر کا عذاب ہے وہ ختم ہو جائے’ تو بیٹے نے فوراً اپنی بہن کا نکاح کروایا اور پھر اُس کے بزرگ والد اُس کے خواب میں خوشی خوشی آئے اور فرمایا کہ اب میری قبر سے عذاب اُٹھا لیا گیا ہے۔

ہم نے ذات پات کا مسئلہ بنا رکھا ہے بیٹیوں کو بوڑھا کر رہے ہیں گھروں میں بیٹھا کر کہ اپنی ہی ذات سے کوئی رشتہ آئے گا تو کریں گے نہیں تو بیٹھی رہے’ آج کل والدین کہتے ہیں فلاں بندے کی بیٹی بھی تو بیٹھی ہی ہے نہ ہماری بھی بیٹھی رہے گی تو کیا ہوا جب اپنی ذات میں سے رشتہ آجائے گا تو ہم شادی کر دیں گے۔ بھائی قبر کا عذاب ذات’ پات کو نہیں دیکھتا ذات ‘ پات صرف زمین کے اوپر ہم لوگوں نے بنا رکھی ہے قبر کے عذاب کو ذات’ پات سے کچھ لینا دینا نہیں قبر کو جو اللہ کا حکم ہے وہ ہی کرنا ہے قبر نے آپ کی ذات ‘ پات والی مجبوریاں نہیں دیکھنی۔ مسجد میں سب ذات’ پات کو بھلا کر ایک ہی صف پر کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہیں جب خدا نے ہمیں سبق دیا ہے کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل نہیں تو ہم کہاں کے پھنے خاں بنے پھرتے ہیں؟

آج کل نوجوان مختلف گناہوں میں مبتلا ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے اندر ہی اندر سے کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں’ ان سب گناہوں کا عذاب ان کے ساتھ ساتھ والدین پر بھی آئے گا’ یہ سب فضول بہانے ہیں ہم نے خود مسئلے بنا لیے ہیں اسلام سے دوری اختیار کر کے ہم خود پھنس گئے ہیں’ پیسہ ‘ پیسہ’ پیسہ ہمارا دین ایمان پیسہ ہی بن گیا ہے حالانکہ یہ پیسہ دینے والی ذات بھی ”اللہ” ہے۔ نوجوان لڑکی’ لڑکوں کے والدین سے گزارش ہے کہ زندگی کا بھروسہ نہیں’ ہم تو پہلے ہی بہت گناہ گار ہیں اپنی اولاد کے گناہوں کا بوجھ تو کم از کم خود پر نہ ڈالیں۔ انسان ہوں لکھنے میں غلطی ہو سکتی ہے’ اہل علم میری اصلاح کریں۔

Afzaal Ahmad

Afzaal Ahmad

تحریر : افضال احمد