بچوں کو زہر پلانے کی اجازت نہیں دینگے : سپریم کورٹ

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ناقص دودھ اور مضر پانی کی فروخت اہم اور سنجیدہ معاملہ ہے ، عدالت بچوں کو زہر پلانے کی اجازت نہیں دے گی اور معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچائے گی ، اگر اپنے بچوں کو صحیح دودھ نہیں دے سکتے تو ہم کام بھی نہیں کر سکتے۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں نامزد چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیس میں ناقص دودھ اور پانی فروخت کرنیوالی کمپنیوں کے معائنہ کیلئے لوکل کمیشن تشکیل دیتے ہوئے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔فاضل عدالت نے فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مزید ریمارکس دیئے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی لیبارٹری سے بھی آگاہ ہیں جہاں ترازو اور چند چیزوں کے سوا کوئی معیاری مشین موجود نہیں ہے۔

عدالت نے دودھ فروخت کرنیوالی کمپنیوں کے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ زہریلا دودھ پلا کر شہریوں کو مارنے کی کوشش نہ کی جائے ۔خالص خوراک کی فراہمی مفاد عامہ کا معاملہ ہے ۔ معصوم بچوں اور شہریوں کو معیاری دودھ اور پانی کی فراہمی انکا بنیادی حق ہے ۔ اﷲ توفیق دے ،شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

عدالت نے دودھ اور پانی کے بھجوائے گئے نمونوں کی رپورٹ آئندہ سماعت پر پیش کرنے اور مضر صحت دودھ اور پانی سپلائی کرنے کے ذمہ داروں کیخلاف بھرپور کارروائی کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔

درخواست گزار بیرسٹر ظفراللہ نے عدالت کو بتایا کہ پی سی ایس آئی آر لیبارٹری کی رپورٹ میں ثابت ہو چکا ہے کہ کھلے دودھ کے علاوہ ڈبہ بند دودھ میں کیمیائی مادے استعمال کئے جاتے ہیں۔ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل نے عدالت کو بتایا کہ ناقص اور غیر معیاری دودھ فروخت کرنیوالی کمپنیوں کو جرمانے کئے جا رہے ہیں اور ان سے قانون کے تحت نمٹا جا رہا ہے۔

فوڈ اتھارٹی نے پانی کے 300 اور دودھ کے 30 نمونہ جات تجزیہ کیلئے لیبارٹری بھجوا دیئے ہیں۔ہمارا اختیار صرف 5 اضلاع تک ہے ، پورے صوبہ میں چیکنگ نہیں کر سکتے ۔ جس پر عدالت نے قرار دیا کہ ہم آپ کو پورے صوبہ میں جانے کی اجازت دے رہے ہیں کہ دیکھیں وہاں کیا ہے ، آپ عدالت کے نمائندہ کے طور پر وہاں جائیں، جن کمپنیوں کی چیکنگ نہیں ہوئی وہاں کا دودھ بھی ٹیسٹ کروائیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

ادھر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں قائم 2 رکنی بینچ نے سندھ میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے دائر درخواست پر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو عدالت عالیہ کے جج کی سربراہی میں ایک ہفتے میں شفاف پانی کی تقسیم کاری سے متعلق کمیشن بنانے اور الزامات کی تحقیقات کرکے 6 ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنیکا حکم دیدیا ۔سماعت کے دوران چیف سیکرٹری سندھ رضوان میمن اور دیگر افسر عدالت میں پیش ہوئے۔

درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ صوبہ بھر کو گندا اور کھارا پانی فراہم کیا جا رہا ہے جس کے باعث لوگوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ منتخب نمائندے خود کام نہیں کرتے ، وہ آرڈر کرتے ہیں۔ حکومت کے ماتحت اداروں میں خامیاں دور کرنے کیلئے ہی کمیشن بنا رہے ہیں۔

صوبہ سندھ بھی پاکستان کا حصہ ہے۔ صاف پانی کی فراہمی حکومت کا کام ہے۔ لوگوں کو صاف پانی نہیں مل رہا ہے ، لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں ،کراچی میں بھی پینے کے پانی کے مسائل ہیں۔ ہم حکومت کے ناکام ہونے کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ سندھ کے شہریوں کو پانی کی فراہمی کا سسٹم بہتر بنانے کیلئے کام کیا جائے ، حکومت اپنا کام جاری رکھے۔

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سندھ کے شہریوں کو صاف پانی فراہم کرے ۔ ہم کوئی ایسا کام نہیں کر رہے کہ جس سے حکومت کو پریشانی لا حق ہو۔محکمہ بلدیات میں سارے فرشتے نہیں بیٹھے ہوئے۔ حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ دھابیجی کا پمپ خراب ہو جائے تو اسے ٹھیک کروا لے۔