لٹو تے پھٹو گینگ

Choto Gang

Choto Gang

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
گینگ چھوٹو ہو یا بڑو انکا آجکل چرچا زبان زد عام ہے سات اضلاع کی پولیس بمعہ اپنے چیف کمانڈرآئی جی کے ہفتوں تک گھیرا ڈالے رہی اور بیوقوفانہ حملے کے ذریعے اپنے ہی جگر گوشوں کی سا ت لاشیں وصول فرمالیں اور 20 سے زائد بمعہ اسلحہ اغوا کروا بیٹھے۔ یہ تو اظہر من الشمس ہے کہ اگر پورے پنجاب کی پولیس وہاں لگا دی جاتی تو نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا ہی نکلنا تھا کہ اب ہماری محترمہ پولیس کی اندرونی سیٹ اپ ہی ایسے مخصوص طریقہ پر ہو چکی ہے کہ جہاں مال متال نظر آئے گا وہاں زور لگائے گی۔ جدھر ہندو بنیوں کی طرح ایسا نہ ہو گا وہیں آنکھیں چرائے گی اور مقابلہ کا حوصلہ تو بالکل ہی نہ پائے گی سنتے تو یہی آئے ہیں کہ ہماری پولیس تو وہ ہے جس سے چور کانپتے، ڈکیت اور وارداتئیے کنی کتراتے ہیں اس کے باوجود منشیات فروشوں، ڈکیتوں اور اغوا برائے تاوان والوں کا کاروبار دھوم دھڑلے سے پورے ملک میں جاری و ساری رہتا ہے اور ان کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔

راز یہ ہے کہ متعلقہ علاقہ کے تھانیدا ر کا اس میںحصہ بقدر جُسہ ہو تا ہے جو کہ اکٹھا کرکے اوپر تک پہنچا یا جاتا ہے جس سے پوری طرح کرپشن کا گھن چکر چلتا رہتا ہے ایس ایچ او اور اس کا کسی دیہاتی تھانہ میں تعینات ہو نا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو تا ہے۔بڑ ھ چڑھ کر بولیاں لگتی ہیں اور سب سے اونچی بولی کا بول بولنے والا ٹھوک بجا کر “تھانیدار” لگ جاتا ہے۔ بعد ازاں بھی افسروں کی نظر میں اس کا دیانتدار ہو نا اشد ضرور ی ہو تا ہے کہ وہ جو مال متال وصول فرمائے گا اس کا پورا طے شدہ حصہ اوپروو الوں کو بلا حیل و حجت وقت مقررہ پر پہنچائے گا اس طرح سے گلشن کاکاروبار چلتا رہتا ہے کہ دیہاتی چکوک ،گوٹھوں ،ڈیروں پر پو لیس کے کارندے تھانیداروں کے نمائند ے بن کر روزانہ دورہ پرروانہ ہوتے اور کامیاب لوٹتے ہیں۔

حصص کی تقسیم یا حصہ رسدی میں کبھی ایک پیسہ کی ہیرا پھیری نہیں ہو پاتی اسطرح سے سبھی خوشحال رہتے ہیں اوپر والے بھی اچھے کمائو پتروںکو ہی کسی دور کے تھانہ میں تعینات فرماتے ہیں۔پولیس کے کارِ نمایاںکے طور پر مشہور ہے کہ اگر کہیں سے اطلاع ملے کہ ڈاکو صاحبان پہنچے ہوئے ہیں اور آپ جلد تشریف لائیے تو ہمیشہ ان کی تشریف صاحبہ لیٹ ہی پہنچتی ہے ڈاکو واردات فرما کر ایک راستہ سے فرار ہوتے ہیں اور پولیس جان بوجھ کر ذرا توقف کے بعد دوسرے راستے سے متعلقہ متاثرہ شخص کے ہاں قدم رنجہ فرماتی ہے اب مدعی کا پرچہ درج ہونا بھی خوش قسمتی سے ہی ہو گا۔ اور وہ بھی رقم مخصوصہ کے بغیر تو ممکن ہی نہ ہے پھر مجرموں کی تلاش کے لیے اپنی ائیر کنڈیشنڈ کاریں یا کرایہ پرلے کر پولیس افسران کو دینی پڑیں گی تب تلاش شروع ہو گی اگر ملزمان ڈاکو پکڑ بھی لیے جائیں تو پھر تو پولیس کی چاندی ہو جاتی ہے اب جتنا مال مدعی دے گا اتنا ہی پریشر ملزمان پر ڈالا جائے گااور مدعی کے تھانہ سے باہر روانہ ہوتے ہی ڈکیتوں سے مک مکا اور لین دین شروع ہو جائے گا۔

Police

Police

جسمانی ریمانڈ کم دن کا لیں گے ،جلد ختم کرائیں گے ، آپ پر بر آمدگی کم یا بالکل نہیں ڈالیں گے ،جج کے پاس پیش کرتے وقت کم یا بالکل نہیں بولیں گے،ضمانت کروانے میں ممد و معاون بنیں گے ،بعد میں مقدمہ چلنے پر پو لیس گواہوں کواچھی طرح نہیں یا بالکل نہیں بھگتائے گی وغیرہ ۔ہر کاج و رعایت کے علیحٰدہ دام مقرر ہیں ۔مدعی راضی تفتیشی کہے گا کہ دیکھا ہم نے آپ کے ملزم کس طرح پکڑ لیے ہیں۔آپ پورے تھانہ کی دعوت کریں یا پانچ سات کلو مٹھائی کا ڈبہ لائیں دوسری طرف ملزمان سے خوب مال بٹورا جارہا ہے کہ تمہاری اتنی بھاری رقم کی ڈکیتی ہماری ہی کو تاہی کی وجہ سے کا میاب ہوئی ہے تو لائو ہمارا حصہ نکالو وہ تھانہ حوالات میں پڑ ا مرتا کیا نہ کرتا کی طرح لواحقین ،ملاقاتی بیوی بچوں کو مجبور کرتا ہے کہ ادھر مال لاکر دوخواہ اپنی شادی کا سونا ہی فروخت کرو وگرنہ رات کو”تفتیش “ہوگی جو کہ فلاں فلاں مخصوص طریقہ سے ہی ہو گی جس سے ملزم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

عادی ملزمان کو تو یہ سبق ازبر یاد ہی ہوتا ہے انھیں تفتیش ہلکی کرنے ،رات کو تنگ نہ کرنے کی رقم علیحدہ اداکرنا پڑتی ہے بالآخر تھانہ کا قصہ تمام کرکے ملزم اگر جیل یا ترا کو پہنچ ہی جائے تو پھر جیل حکام کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔صبح کو جیل میں پو چانہ کرنے،دیگر مشقتوں پر نہ جانے،سہولت والی مخصوص جگہ (کھڈی)پر رات کو بند ہو نے ملاقات جلد اور بار بار کروانے وغیرہ کی علیحدہ علیحدہ رقوم وصول کی جاتی ہیں یہاں بھی متعلقہ عملہ تندھی سے مال اکٹھا کرتا اور وزارت خزانہ یعنی سپرنٹنڈنٹ جیل کو بر وقت پہنچا تا رہتا ہے جیل حکام اپنا حصہ رکھ کر ہر ہفتے اوپر ارسال فرماتے ر ہتے ہیں اس طرح سے غریب چوری ڈکیتی میں لٹ گیا اور ملزم آگے لٹتے رہتے ہیں۔

Ghulam Rasool Choto

Ghulam Rasool Choto

چھوٹو گینگ بھی جتنی وارداتیں کرتا تھا باقاعدہ وافر حصہ یا منتھلی پولیس کو پہنچتی تھی اور یہ گروپ پولیس کے سفارشی کام (انوکھی محیر العقول وارداتیں) بھی کر ڈالتا تھا ایسے کیسز میں پو لیس کا وافر حصہ اور چھوٹو گینگ کا حصہ کم ہوتا تھا چو نکہ کوئی واردات سہولت کار کے بغیر ممکن ہی نہیں تو اس طرح یہ سارا کرپٹ نظام صرف سرمائے کے گرد ہی گھن چکرلگاتا رہتا ہے جس کا نہ کوئی توڑ ہے اور نہ ہی ان ہاتھوں کو کوئی مروڑ سکتا ہے۔ایک جید عالم دین نے خوب کہا تھا کہ “حکومت کی خرابی ہی خرابیوں کی جڑ ہے”اسی لیے تو ہر راسخ العقیدہ مسلمان پر ایسی جدوجہد فرض ہی سمجھیں تاکہ اقتداری کرسیوں پر ایماندار اشخاص براجمان ہو سکیںخواہ و ہ وسیع پیمانے پر تبلیغ کے ذریعے ہوں یا انتخابات کی بدولت غرضیکہ جب تک خدا کی زمین پر اسی کا اقتدار قائم نہیں ہو جاتا۔

گلشن کا کاروبار اسی طرح چلتا رہے گا ہم عوام بمعہ حکمران روزانہ چیخ و پکار اور دھینگا مشتی کر تے کرتے آخری دنیا کو سدھار جائیں گے اور چھوٹو ،موٹو،لوٹو گینگ بمعہ اپنے سر پرستوں علاقائی جاگیرداروں،کرپٹ وڈیرے اور دنیا کے غلیظ ترین لعنتی نظام سود کے علمبردار صنتعکاروں کی بدولت دھما چوکڑیاں بھرتے ،مٹتے اور دوبارہ ابھرتے رہیں گے سیاسی دنگل کے مخصوص استاد اور قابل کھلاڑی ادھر ادھر سے مال سمیٹ کر بیرون ممالک دفن کرنے کے پی ایچ ڈی ہیںاگر پکڑ دھکڑ کا خطرہ محسوس ہو تو زرداری کی طرح لٹو تے پھٹو کا فن خوب جانتے ہیں۔

لٹوتے پھٹو والاکا روباروہی افرادبالخصوص حکمران ممبران اسمبلی یا ان کے منظور نظر ہی کرسکتے ہیں جن کا کلہ مضبوط ہو تھانہ کچہری سنتاہو انتظامی افسران تابع فرمان ہوں اس کے لیے اوپر والوں کی اشیر بادکی ضرورت ہوتی ہے مگرآجکل ویسے ہی الٹی گنگا بہ رہی ہے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سیکرٹریٹ ضلعی افسران سے ڈائریکٹ رابطہ میں رہتے ہیں اسی لیے تو حکمران ممبران اسمبلی اپنی ڈوبتی نیا کو پار لگانے کی جدوجہد چھوڑ چکے ہیں اور بے دلی سے لڑنے والی افواج نے کبھی جنگ نہیں جیتی اسی لیے ہر مقتدر فرد لٹو تے پھٹو کے لیے تیار بیٹھا ہے۔

 Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری