پنجاب میں اقلیتیں

Punjab government

Punjab government

تحریر: واٹسن سلیم گل
گزشتہ چار سے پانچ ہفتے پاکستان میں مسیحیوں کے لئے بھاری رہے ہیں۔ اور بد قسمتی سے صوبہ پنجاب میں 99 فیصد واقعات رپورٹ کئے گئے ہیں جو کہ پنجاب حکومت کی اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے ناکامی کا منہہ بولتا ثبوت ہے ۔ مسلم لیگ نواز کا اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے ریکارڈ بہت خراب رہا ہے۔ گو کہ اس وقت پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں نواز لیگ کی پالیسیاں پیپلز پارٹی کے پچھلے دور کے مقابلے میں قدرے بہتر ہیں۔ مگر پنجاب میں ان کی حکومت مسیحیوں کو وہ عزت اور احترام دینے میں بُری طرح سے ناکام رہی ہے جس کے وہ پاکستانی ہونے کے ناطے حقدار ہیں۔ مجھے سمجھ نہی آتا کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ پاکستان کی سب سے بڑی اور صوبوں کے لحاظ سے طاقتور سیاسی پارٹیاں ہیں۔

مگر سندھ میں ہندو کمیونٹی پیپلز پارٹی کے دور میں زیادتی کا شکار ہے اور پنجاب میں مسیحی اپنے آپ کو آزاد نہی سمجھتے ۔ ایسٹر کے روز گلشن اقبال پارک میں خودکُش دھماکے میں 35 مسیحیوں سمیت 69 افراد جاں بحق ہوئے۔ مگر چونکہ پاکستان اس وقت دہشتگردوں کے نشانے پر ہے اور ان حملوں میں تمام مزاہب، فرقوں کے لوگ نشانہ بن رہے ہیں اس لئے مسیحوں نے بھی دہشتگردی کی اس جنگ میں لہو پیش کر کے اپنے پاکستانی ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ مگر جس مزہبی تعصب اور نفرت کا سامنا خصوصی طور پر پنجاب میں مسیحیوں کو درپیش ہے وہ قابل قبول نہی ہے۔

Justice

Justice

(1)اپریل کی 5 تاریخ کو شیخوپورا میں ایک مسیحی نوجوان ناظر مسیح کا گلا کاٹ کر اسے دن دہاڑے قتل کر دیا گیا۔ قاتلوں نے فروزوالا سیشن کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری کروالی ہے۔ ناظر مسیح کا باپ اقبال مسیح انصاف کا منتظر ہے ۔(2) اپریل میں ہی کوٹ رادھاکشن کے مرکزی ملزم کی ضمانت منظور ہوئ جو کہ اس بھٹی کا مالک ہے جس بھٹی میں شہزاد مسیح اور شمع مسیح کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اور اس کیس کو کزور بنانے کی کوشش تیز ہو گئ ہے۔(3) اپریل میں 18 سالہ قیصر مسیح کوقتل کر کے اسکی لاش اسکے گھر کے سامنے پھانسی پر لٹکا دی گئ۔ محمد بلا پہلوان کو صرف شک تھا کہ اس نوجوان کے اس کی بیٹی سے مراسم تھے ۔ اب اس کیس کو بھی خودکشی کا رنگ دیا جارہا ہے۔ (4)14 اپریل کو قصور چک 13 میں محمد طالب اپنے ساتھیوں کے ہمرا سرور مسیح کے گھر میں داخل ہوکر اس کی 23 سالہ بیٹی لویزا مسیح کو ماں باپ کے سامنے اغوا کرلیا ۔

پولیس اس کیس میں دلچسپی نہی لے رہی ہے کیونکہ ان کا یہ کہنا ہے کہ لویزا مسیح اب محمد طالب کی بیوی ہے اور مسلمان ہو چکی ہے۔ (5) اپریل میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاؤں رانجھنا کی رہاہشی شازیہ مسیح کو زیشان عارف اور محمد رضوان نے زبردستی گھر میں گھُس کر اجتماہی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ شازیہ (اصل نام نہی) کا شوہر آرمی میں ہے اور اس سانحے کے وقت پشاور میں تھا۔ اس کے ملزم گرفتار ہو چکے ہیں ۔ وجہ شاید یہ ہے کہ اس کا شوہر آرمی میں ہے ۔ (6) مئ میں فیصل آباد کے قصبے ناظم آباد کا لونی کے رہائیشی سمسون مسیح جو کہ گھروں پر رنگ کا کام کرتا تھا۔ اس نے حاجی رشید کے گھر پر رنگ کرنے کا ٹھیکہ تیس ہزار روپئے میں لیا۔ رنگ تقریبا مکمل ہو گیا تھا مگر حاجی رشید پیسے دینے سے گریز کر رہا تھا ان کی تکرار ہوئ حاجی رشید غضب ناک ہو کر اس کے گھر آیا اور شرمناک قسم کی گالی گلوچ کرنے لگا جس پر سمسون اور اس کے والد اسحاق نے اسے منع کیا کی گھر پر خواتین ہیں گالی گلوچ مت کرو ۔ یہ سن کر حاجی رشید وہاں سے چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد اپنے بیٹے بشارت اور اس کے دوست یاسر کے ساتھ اسلحے کے ساتھ حملہ کر دیا۔ دادا اور اور دو سالہ پوتا صحن میں کھیل رہے تھے۔

Christ

Christ

اسحاق مسیح اور سمسون مسیح گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو گئے جبکہ دو سالہ آیان مسیح سر میں گولی لگنے سے جاں بحق ہو گیا ۔(7) گزشتہ چند دنوں سے منڈی بہالدین تحصیل پھالیہ بوسال کے چک 44 میں مسیحی کمیونٹی خوف اور دہشت کے سایے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ چند دن قبل عمران مسیح پر مبینہ طور پر توہین رسالت کا الزام لگا جس پر علاقے کے مقامی مسلمان مشتعل ہو گئے۔۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ یا تو وہ عمران مسیح ولد شریف مسیح کو بھرے چوک میں زندہ جلاہیں گے یا پھر چک 44 کے تمام مسیحی اسلام قبول کریں۔ دوسری صورت میں اس گاؤں کو چھوڑ کر چلے جاہیں۔ ابھی تک تو حالات پولیس کے کنٹرول میں ہیں اور چند مسیحی اور مسلمان لیڈرز اس آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔(8) 12 سالہ سلمان مسیح جو کہ گوجرنوالہ کے قصبے قلہ دیدر سنگھ کے گاؤں چھل کلاں کا رہائشی تھا۔ اس کی لاش علامہ چوک پر لٹکی ملی ہے۔ ماں باپ کا کہنا ہے کہ اسے نوکری چھوڑنے کی سزا دی گئ ہے۔ اور اب کہا جا رہا کہ کہ اس 12 سالہ بچے نے خود کشی کر لی ہے۔

اس کے علاوہ اورنج لائن ٹرین کے روٹ پر پنجاب سمیت پاکستان کے تمام مسیحیوں کو سخت تشویش ہے کہ کیتھیڈرل چرچ سمیت سینٹ اینڈریو چرچ، سینٹ پال چرچ اور نولکھا چرچ کو سازش کے تحت اس روٹ میں رکھا گیا ہے۔۔ مسیحیوں کا یہ ماننا ہے کہ پنجاب حکومت چاہتی تو اس لائن کا روٹ تبدیل کر سکتی تھی۔ ان کے اپنے وُزرا کے گھر اور فارمز کو بچانے کے لئے پنجاب حکومت نے روٹ تبدیل کئے ہیں مگر ان چار تاریخی چرچز کو تباہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ محض چرچز نہی ہیں بلکہ قومی ورثہ ہیں۔ حکومت کا کام ہے کہ اس ورثے کو تباہ ہونے سے بچائے۔ ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ لاہور کے قصبے بہار کالونی سے ایک مسیحی خاتون مریم مشتاق کو اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اپنے چھوٹے بھائ یوحان کے ساتھ گھر جا رہی تھی۔

ایک سفید رنگ کی کار اس کے پاس رُکی اور اس میں چار نامعلوم اغوا کاروں نے اسے اٹھا کر کار میں ڈالا اور فرار ہو گئے۔ مسیحیوں کے ساتھ ہونے والے مزکورہ بالا حالات وہ ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں ۔ جبکہ بہت سے واقعات ایسے ہیں جو مین اسٹریم میڈیا پر رپورٹ نہی ہوتے ہیں۔ اور لوگ اپنی عزت کو بچانے کی خاطر اپنے ہونٹوں کو سی لیتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ صوبہ بلوچستان میں خواندگی کا تناسب دیگر صوبوں کے مقابلے میں کم ہے مگر سوائے دہشتگردی کے واقعات کے وہاں مزہبی تفریق نظر نہی آتی۔ صوبہ خیبر پختون خواں میں بھی بھی حالت قدرے بہتر ہے۔ سندھ میں کراچی اقلیتوں کے لئے زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ مگر صوبہ پنجاب میں بہتری تو دور کی بات ہے وہاں تو ان حالات کو بہتر بنانے کے لئے ابھی تک کسی پالیسی کا بھی آغاز نہی ہوا ہے۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر: واٹسن سلیم گل