تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

Meeting

Meeting

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
میںتھا تو جدہ میں ہی لیکن اس ملاقات میں موجود نہ تھا البتہ یہ خبر گرم تھی کی بی بی سرور پیلیس آ رہی ہیں اور آج میاں صاحب سے ملاقات ہو گی۔بعد میں ہمارے پیارے دوست قاری شکیل مرحوم نے ملاقات میں بھول پنی سے کام لیتے ہو ئے کہا چودھری صاحب پہلی واراں آپاں نئیں لینی(چودھری صاحب پہلی باری ہم نے نہیں لینی )یاد رہے قاری شکیل احمد اس وقت سعودی عرب مسلم لیگ کے صدر تھے۔ صدر کیا تھے ان کے ملازم تھے کبھی موقع ملا تو ان کی ناگہانی موت کا بھی ذکر کروں گا جس سے خاندان شریفیہ کی بے وفائی جھلکتی نظر آئے گی۔میاں صاحب اس سے پہلے حرم پاک میں میری موجودگی میں دلشاد احمد جانی جو سعودی پی پی پی کے جیالے رہنما تھے ان سے کہہ چکے تھے کہ آئیں جمہوریت کے لئے آئومل جل کر کوشش کریں۔میثاق جمہوریت کی بنیاد کہاں رکھی گئی کہاں پروان چڑھا یہ تو سب کو معلوم ہے لیکن اس کی روح یہ تھی کہ تم لوٹو تو میں چپ، اور میں لوٹوں تو تم خاموش۔اس روح کی جزویات کہاں طے ہوئیں اسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ جدہ لندن اس کے مرکز تھے۔یہ الگ بات ہے کہ جو چیزیں طے ہوئیں ان کے ثمرات کسی اور نے سمیٹے۔

بی بی این آر او کے نتیجے میں پاکستان آ گئیں نواز شریف بی بی کے آنے کے بعد پاکستان پہنچے۔اس داستاں کو چھیڑیں اس کو کھنگالیں تو آپ کو علم ہو جائے گا کہ لوٹنے والوں نے مل کر اس چمن کو لوٹا۔
کہتے ہیں سیاست کے سینے میں کوئی دل نہیں ہوتا بس دماغ ہوتا ہے جو شیطانی چالوں میں مصروف رہتا ہے۔یہ بے رحم کھیل بیٹے کے ہاتھوں باپ کو بھی دھکا دلوا دیاتا ہے اور بھائی کے ہاتھوں سگے بھائی کو بھی میاں نواز شریف اور بے نظیر کا متحد ہونا جنرل مشرف کے خلاف تھا لیکن یہ بات بھی کہیں اورطے کی گئی تھی کہ بی بی مشرف مل کر چلیں گے۔اسی ماہ دسمبر میں بی بی لیاقت باغ کے باہر مار دی گئیں۔پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی اسی لیاقت باغ میں جہان فانی سے کوچھ کر گئے۔سچی بات ہے بڑے لوگ چھوٹی موت مار دئے جاتے ہیں جان ایف کینیڈی مہاتما گاندھی لیاقت علی خان بے نظیر بھٹو کسی کی موت کا کچھ نہیں بنا۔

پاکستان اپنے قومی سرکردہ افراد کی موت پر ہاتھ مل رہا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ بڑے بڑے لوگوں کے قاتل اسی جگہ مار دئے جاتے ہیں ۔در اصل یہ کرائے کے قاتل ہوتے ہیں جو کسی کی سیپاری پکڑ کر نشانے پے لیتے ہیں مگر عین سی وقت بڑے مجرم قاتل کی سیپاری بھی کسی کو پکڑا دیتے ہیں۔بی بی کو کس نے مارا کوئی سکاٹ لینڈ آپ کو نہیں بتائے گا۔یاد رکھئے نہ تو آصف علی زرداری نے آپ کو بتانا تھا کہ میری بیگم کس نے ماری ہے اور نہ ہی میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے یہ سر دردی اپنے نام کرنا تھی۔حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ قومی سرمایہ ہوتے ہیں ان کی زندگی صرف ان کے بچوں یا اہل خانہ کے لئے نہیں ہوتی یہ پوری قوم کا اثاثہ ہوتی ہے۔قوم آج بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی ناگہانی موت کا پوچھتی ہے محترمہ فاطمہ جناح کی موت ان کے جنازے میں ہونے والی ہلڑ بازی ،ہلاکتوں اور اس کے بعد لیاقت علی خان کی شہادت ان کے قاتل میر اکبر کی اسی لمحے موت جنابہ بے نظیر کی شہادت کا روز پوچھتی ہے۔انہیں کیوں مارا گیا قائد کو سخت بیماری کی حالت میں اس جگہ کیوں بھیجا گیا جہاں نمونئے کے مریض کی زندگی کم آکسیجن والی جگہ کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔

Quaid e Azam

Quaid e Azam

قائد کے لئے ایسی گاڑی کیوں بھیجی گئی جو پھٹیچر تھی جس میں پٹرول بھی نہیں تھا اور پھر پروٹوکول کیوں نہیں دیا گیا انہیں لینے کوئی بڑی شخصیت ایئرپورٹ کیوں نہیں گئی۔ایک بہن ان کی موت کے احوال جب بیان کرتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے اس کا جن(جناح) کیوں بے موت مارا گیا۔خود فاطمہ جناح کا اس دنیا سے جانا ایک سوال چھوڑ گیا ہے۔ان کے جنازے کے دن کیوں ہلڑ بازی ہوئی کچھ زندگیاں چلی گئیں۔پاکستان میں اس قسم کے واقعات پوری قوم کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ہماری سپریم کورٹ کو کوئی فرصت ملے تو ایک کمیشن تشکیل دے جو قائد اعظم ،محترمہ فاطمہ جناح،شہید ملت لیاقت علی خان محترمہ بے نظیر بھٹو کی اموات کی تحقیق کرے۔نئی نسل کو علم ہو کہ یہ لیڈران کس نے مارے کون تھا قاتل کس نے اس ملک کو رونے پر مجبور کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کا تو لوگوں کو علم ہے کہ ان کے اوپر قتل کا کیس تھا۔اس کیس میں وہ بری بھی ہو سکتے تھے اور انہیں تختہ ء دار پر لٹکایا بھی جا سکتا تھا۔یہ کیس ایک ایسا کیس ہے جس کی تاویلیں اپنی اپنی سوچ کے مطابق کی جاتی ہیں لیکن ان کی بیٹی کو کس نے مارا یہ اس صدی کا سب سے بڑا سوال ہے۔ممیرے جیسا سیاسی کارکن جب اس کیس کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے شہید ہونے سے پہلے والے لوگوں کی فہرست اور بعد از شہادت پی پی پی کے بڑوں کی لسٹ میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔میری حقیر رائے میں بی بی سودا کر کے آئی تھی پلین اے میں وہ مشرف کی پارٹنر تھی پلین بی میں وہ نظر نہیں آئی تونیا پارٹنر سامنے آ گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ساری مار دھاڑ میںپیچھے تھا کون؟۔

ہماری بد قسمتی ہے ہمیں مارنے والے کا پتہ ہی نہیں ہے۔قومیں اگر اپنے قاتلوں کو جان جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کسی مناسب وقت پر اس سے بدلہ بھی لے پائیں لیکن نامعلوم افراد کے ہاتھوں مرنے والے کس کے ہاتھ میں لہو تلاش کریں۔پاکستان کے بانی،پاکستان کے بانی کی بہن، شہید ملت پاکستان کی وزیر اعظم سار بے موت مارے گئے۔میں اس موقع پر ان کالموں کے ذریعے پاکستان کے چیف جسٹس سے اپیل کروں گا کہ وہ ان معاملات کی تحقیق کے لئے ایک کمیشن قائم کریں۔کم از کم اس قوم کے حال پر رحم کیا جائے کہیں یہ تو نہیں کہ جعلی لوگ اس ملک کی قسمت سے کھیلتے رہیں اور اس قوم کو اندھیروں میں دھکیل دیں۔ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ نئی زرداری چال کے پیچھے میاں صاحب کیا کھیل کھیلنے والے ہیں۔کیا پاکستان کے سارے چوہے کسی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے جا رہے ہیں یا کوئی نیا کھیل پھر قوم کو پریشان کرنے کے لئے کھیلا جائے گا۔ایک سادہ پاکستانی اپنے لیڈران کے قاتلوں کی تلاش میں ہے۔اسی لئے تو وہ کہتا دکھائی دیتا ہے میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں؟۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری