تہذیب کہاں بھول آئے، حیا کس مول بیچی ہے

Civilization

Civilization

تحریر: علینہ ملک

تجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے، باطن میں گرفتاری

نوع انسانی کا آغاز جب جنگل اور غاروں کے دور سے ہوا تب انسان کو نا تن ڈھانپنے کا شعور تھا نا زندگی گزارنے کا کوئی اصول تھا، نامعاشرت کے آداب معلوم تھے نا رہن سہن کے قرینے سے واقف تھا۔ پھر وقت تغیر کھاتا گیا اور زندگی تراش خراش کے کئی مراحل سے گزرتی چلی گئی، تو انسان بھی شعور کی کئی منزلیں طے کرتا گیا، انسانی اقدار، روایات ،طور طریقے، چال چلن، بول چال کے انداز بدلنے اور سنورنے لگے۔

دنیا ایک نئے رنگ میں رنگتی چلی گئی ،اور پھر بحیثیت مسلمان اور نبی ﷺ کے امتی ہونے کے ناطے جوآداب معاشرت اور اخلاقیات کا سبق ہم مسلمانوںنے حاصل کیا اس نے ہمیں انسانیت کی معراج تک پہنچا دیا ۔مانا کہ زندگی ارتقاءکی مر ہون منت ہے اگر زندگی میں یہ تغیر نا ہوتا تو دنیا جمود کا شکار ہو جاتی۔تبدیلی اور مثبت تبدیلی معاشرے کے لئے ناگزیر ہے ۔مگر ایسی تبدیلی جو معاشرے کو تہذیب معاشرت ،ادب آداب ،اخلاقیات ،انسانیت اور شرافت ،سے دور کر دے وہ ناسور اور زہر قاتل کے سوا کچھ نہیں ۔ایک دور تھا جب زندگی سیدھی ،سادہ اور آسان تھی ۔بناوٹ سے پاک و صاف ،سچائی کا چلن تھا ،پاکبازی کی قدر و قیمت تھی،معاشرے میں تہذیب تھی نظروں میں حیا اور شرم تھی۔مگر آج معا شرہ مادیت پرستی میں اس قدر گرفتار ہوا ہے کہ حرام حلال،جائز ناجائز ،صحیح غلط ،اچھائی برائی ۔حیا اور شرم کی تفریق اور تمیز تک ختم ہو گئی ۔اور یہی وہ نمایاں خرابیاں ہیں جس نے معاشرے سے انسانیت ،اخلاقیات اورتہذیب کو گھن کی طرح چاٹ ڈالا۔

اٹھا کے پھینک دو گلی سے باہر
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

آج سے کئی برس پہلے اقبال کا کہا ہوا یہ شعر اس دور پر تو شاید پورا اتر تا ہو یا نا ہو مگر آج کے معاشرے اور نئی نسل پر پوری طرح صادق آتا ہے ۔ایک وہ وقت بھی تھا جب تعلیم عام نہ تھی مگر اخلاقیات کے زیور سے کوئی ان پڑھ بھی ناواقف نہیں تھا ۔آج تعلیم عام ہے مگر تہذیب نا پید ہے نابڑے کا ادب نا چھوٹے پر شفقت ،نا آنکھوں میں شرم نا باتوں میں حیا ،نا اپنی عزت کا خیال نا دوسرے کی پردہ پوشی بس ہر شخص خود کو بڑا ،اعلیٰ اور اونچا دکھانے کے چکر میں دوسرے کی عزت کو اچھالتا پھر تا ہے چاہے اس سے اس کی اپنی عزت اور شخصیت پر جتنا بھی حرف آجائے مگر کو ئی پر وا نہیں ۔جب کہ زبان ہی وہ واحد ہتھیار ہے جو تلوار سے زیادہ تیز ہوتی ہے مگر ہمیں ان سب باتوں کی اب تمیز نہیں رہی۔

Vulgarity

Vulgarity

جدید تہذیب کی رنگا رنگی اپنی جگہ درست اور اس کے صحت مند گوشے قابل قبول لیکن تہذیب و تعلیم اور ادب آداب کی جگہ پر فحاشی ،بد گوئی ،بد کلامی ،بد تمیزی ،بے ادبی ،بے حیائی جنم لے لے یہ کسی صورت قابل قبول نہیں اور ایک مسلمان قوم کے شایان شان تو ہر گز نہیں ۔ مولانا طارق جمیل نے کیا خوب فر مایا ہے کہ آج جتنے زیادہ اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بن گئی ہیں تعلیم اور تہذیب اتنی ہی ختم ہو تی جارہی ہے۔اس سے زیادہ تہذیب یافتہ لوگ تو اس وقت ہوتے تھے جب وہ اسکول اور کالجوں سے محروم تھے۔

اس مشینی اور میکانکی دور نے انسانی معاشرت کو بے حسی اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔عدم برداشت کے رویوں نے لوگوں کے دلوں میں نفاق ،حسد ،کینہ اور بغض کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ آج ہم ہر قسم کی معاشرتی اور اخلاقی حدود کو پھلانگ چکے ہیں ہمارے اندر یہ احساس تک مر چکا کہ ہماری زبان سے نکلے ہوئے الفاظ نا صرف کسی کی دل آزاری کر رہ ہیں بلکہ اللہ کو بھی سخت نا پسند ہیں ۔ہمیں تو اس بات کی تمیز بھی نہیں رہی کہ اصل حقیقی مذاق کیا ہوتا ہے اور طنز یا تمسخر میں کیا فرق ہے ۔اور اس چرب زبانی ،بے حیائی ،تمسخر کا فیشن عام کر نے میں آج سب سے بڑا کر دار یہ سوشل میڈیا ادا کر رہا ہے جس پر کسی کی عزت محفوظ نہیں کسی کی ذات کا پردہ نہیں رہتا جہاں کسی قسم کے اصول نہیں کوئی قانون نہیں جس کا جی چاہے کسی پر بد گمانی کا الزام لگا ڈالے اور کسی کا تمسخر اڑاتا پھرے اور اپنی دشمنیاں نبھاتا پھرے اپنے حامی لاکھوں کی تعداد میں اکھٹے کر کے کسی کی ذات کسی کے کردار کو نشانہ بنائے یا کسی کا مذاق اڑائے یہاں اب سب آسان ہو چکا ہے۔

پھر معذرت کے ساتھ وہ اعلیٰ پائے کے سیاستدان ،بڑے بڑے لیڈران جو خود کو قوم کا ہمدرد اور مسیحا قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں اور جن کو ایک حلقہ چاہتا ہے ان کی پیروی کر تا ہے آج وہ اپنے پیروکاروں اور چاہنے والوں کے سامنے اپنے مخالفین کے لئے جو لب و لہجہ استعمال کر رہے ہیں اور جن القابات سے نوازتے پھرتے ہیں اور ان کی کردار کشی کر کے ان پر جو کیچڑ اچھالتے پھرتے ہیں انہیں اس بات کی قطعنا پر واہ نہیں کے ان کا یہ انداز اس قوم کو تباہی کے کس گڑھے میں دھکیل رہا ہے۔

Ethics

Ethics

نفرت اور حقار ت کی جو آگ وہ جلا رہے ہیں وہ کل اس پوری قوم کو اپنے لپیٹ میں لے لے گی کسی سے اختلاف رائے اپنی جگہ اور کسی کی عزت،اس کے رتبے کا احترام اور تہذیب و شاہستگی اپنی جگہ ،پھر جیسی کرنی ویسی بھرنی ،جو آپ خود کر رہے ہیں وہی آپ کی طرف لوٹایا جانا ہے کیونکہ اللہ کو یہ سب سخت ناپسند ہے اور آپ اللہ کی ناراضگی مول لے کر دنیا میں کچھ حاصل نہیں کر سکتے مگر افسوس کے ہم پڑھے لکھے جاہل ہیں ہم اپنے دین کے پڑھائے ہوئے اخلاقیات کے سبق کو بھلا بیٹھے ہیں آج اگر ہمیں کچھ عزیز ہے تو وہ صرف اور صرف ہماری خواہشات ہیں جس کے لئے ہم کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں اپنی حیا تک بیچ کر۔

تحریر: علینہ ملک

Civilization

Civilization