اسرائیل کی جارحیت پر عالمی برادری میں سُکوت کیوں؟

Israeli Aggression

Israeli Aggression

دنیا میں امن اور فلسطینیوں کے ساتھ بد ترین دشمنی نبھانے والا اسرائیل نے ایک بار پھر ارضِ مقدس فلسطین میں خون کی ہولی کھیل کر تباہی و بربادی مچادی ہے۔ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے اس نے غزہ کی پٹی میں معصوم اور نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنارہا ہے۔ ان فضائی حملوں اور جارحیت سے یہودی حکمرانوں کی حیوانیت و شیطانیت کا اظہار کھل کر نظر آ رہا ہے۔صہیونی لڑاکا طیاروں کی جانب سے غزہ پر وحشیانہ بمباری پانچویں روز بھی جاری و ساری ہے، اور اسرائیلی ائیر کرافٹ نے بھی جحر الدیک کے علاقے میں بھی بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے غزہ کی زیتون کالونی میں ایک گھر پر بھی بمباری کی جس کی زد میں آکرکئی افراد زخمی ہوئے۔ بمباری سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد اب تک پچاس کے قریب پہنچ گئی ہے جن میں مرد، خواتین، اور بچے شامل ہیں۔یوں فلسطینی شہر غزہ کی پٹی پر صہیونی فوج کی جارحیت کے تسلسل میں بڑے پیمانے پر فلسطینی شہریوں کا جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے، دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے انکشاف کیا ہے کہ صہیونی فوج غزہ کی پٹی پر عالمی سطح پر ممنوعہ اور تباہ کن کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریخ استعمال کر رہی ہے۔

مغربی میڈیا نے اسرائیل کے بغیر دنیا کا تصور پیش کرنے کی جرات پر ایرانی صدر احمدی نزاد پر شدید تنقید کی ہے لیکن ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ مستقبل قریب میں اسرائیل صفحہ ہستی سے نابود ہو جائے گا۔ نیو یارک پوسٹ نے ہنری کسنجر کے ادا کردہ الفاظ اسی طرح شائع کئے ہیں ” In Ten years, there will be no more Israeal “ہنری کسنجر کا بیان صاف اور بلا مشروط ہے وہ یہ نہیں کہہ رہا کہ اسرائیل خطرے میں ہے بلکہ صاف صاف بیان ہے کہ آئندہ دس سالوں میں اسرائیل کا نام مِٹ جائے گا۔

حالیہ حکومت کے بارے میں ایک رپورٹ میں ذکر پڑھا تھا کہ یہ حکومت اسرائیلی تاریخ کی سب سے زیادہ انتہاء پسند حکومت ہے ، جس کے گرنے کے زیادہ خدشات نہیں ہیں تاہم اسرائیل اس وقت معاشی اور اسٹریٹجک بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مختصر عرصے کے لیے اسرائیل میں ہوائوں کا رُخ تبدیل ہو سکتا ہے اب دیکھئے کہ یروشلم میں اسرائیلی حکام نے یہ بیان دیا ہے کہ وہ مصری وزیراعظم حشام قندی کے دورہ کے دوران غزہ کی پٹی پر زبردست فضائی بمباری روک دے گابشرطیکہ کہ انتہا پسند بھی اپنی فائرنگ بند کر دیں۔ لیکن جنگ بندی کے اعلان سے پہلے ہی اسرائیلی جنگی طیاروں نے فلسطینی حدود بشمول غزہ میں کئی ٹھکانوں پر زبردست بمباری کی ہے جس سے بڑی تباہی کے اطلاعات سامنے آ رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ معاملہ بھی دیکھنے اور سمجھنے کی حد سے آگے نکل رہا ہے اور فریڈم فلوٹیلاجیسا کہ پہلے لے جایا گیا تھا یا لے جانے کی کوشش کی گئی تھی دوبارہ غزہ لے جانے کے عزم کا اظہارکریں تاکہ فریڈم فلوٹیلاکے جانے سے غزہ کے مظلوم و محصور فلسطینیوں کی مدد کی جا سکے۔

یوں ان کی داد رسی بھی ہو جائے گی اور شاید عالمی برادری بھی اُس وقت تک ان جارحیت کو رکوانے کی کوشش کر لے تاکہ بے گناہوں کا لہو نہ بہے، بچے یتیم نہ ہوں، والدین اپنے بچوں کو نہ کھوئیں، اس بربریت میں بچے بھی شہید ہو رہے ہیںاخبارات کی تصویروں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ زندہ رہائشی بچے بھی اب تک ڈرے سہمے ہوئے ہیں کہ پتہ نہیں کب اسرائیلی طیاروں سے بمباری ہو جائے اور وہ کام میں آجائیں۔کیونکہ اب تک سات کمسن و شیر خوار بچے شہید ہو چکے ہیں۔ ظالم اسرائیلی فوج نے دس گیارہ ماہ کے شیر خوار بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ خبروں میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ اسرائیل کے سرجیکل حملوں میں جامِ شہادت نوش کرنے والوں میں بی بی سی عربی سے وابستہ فلسطینی صحافی جہاد مشراوی کا گیارہ ماہ کا شیر خوار بچہ بھی شہید ہونے والوں میں شامل ہے۔

Israel Attack Gaza

Israel Attack Gaza

آج فلسطین کے لوگ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور اقوامِ متحدہ سے یہ سوال کر رہی ہیں کہ آیا تم سب اندھے ہو گئے ہو جو تمہیں اسرائیل کی بربریت نظر نہیں آ رہی ہے، شدتِ غم سے نڈھال ان ضعیف مائوں کی آہیں تمہاری سماعت سے نہیں ٹکراتیں جن کے نوجوان بیٹوں کا صیہونی فوج نے قتل کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کیا تمہاری سماعتوں سے ان روتی ہوئی فلسطینی لڑکیوں کی صدائیں نہیں ٹکراتیں جن کے معصوم بھائیوں کو اسرائیلی فوج خون میں نہلا رہی ہے۔ کیا تم سب گونگے ہوگئے ہو جو فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کو دیکھنے کے بعد بھی اپنی زبان نہیں ہلاتے ، شیر خواروں کی لعشیں، ان کی مائوں کی تڑپ دیکھ کر بھی تمہارے ذہن و دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا؟آخر تمہارے زبانوں پر تالے کس نے ڈال رکھے ہیں؟شاید سارے فلسطینی جانتے ہیں کہ 1948میں تم نے جس ناجائز مملکت کا قیام عمل میں لے کر آئے تھے وہ آج خود تمہارے لئے تباہی و بربادی کا سامان کر رہی ہے۔ اگر تم زبان کو ہلکی سی جنبش بھی دو گے تو وہ ناجائز مملکت جس نے دنیا کے بدترین و ہولناک عفریت کی شکل اختیار کر لی ہے تمہارے وجود کیلئے خطرہ بن جائے گی اور تمہارے مفادات کو ایک جھٹکے کے ساتھ اپنا لقمہ بنا لے گی۔

ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب مشرقی وسطیٰ امن و امان اور تہذیب و تمدن اور اسلام روایات کا مسکن تھی اور آج بھی غالباً ہے۔ لیکن چند دہائیاں پہلے جب یورپ اور امریکہ میں یہیودی لابی مضبوط ہوئی اور برطانیہ، یورپ اور امریکہ کے بَل بوتے پر مشرق وسطیٰ میں یہودیوں کو آباد کرنے کا گھنائونا کھیل رچایا گیا وہ دن ہے اور آج کا دن مشرق وسطیٰ فسادات اور تخریب کاری کی زد میں ہے۔ کہتے ہیں کہ اسرائیل نہایت ہی چھوٹا متنازعہ خطہ ہے لیکن لیکن دنیا میں سب سے زیادہ تباہی کا سامان، دولت اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دوسرے اسلامی ممالک سے کہیں زیادہ مضبوط بن چکا ہے۔ پوری دنیا میں انہیں مکار ، فریبی، سود خور اور سازشی قوم کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی صرف مسجدِ اقصیٰ ہی کو مسمار نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ ارضِ فلسطین سے فلسطینیوں کا بھی نام و نشان مٹا دینا چاہتے ہیں۔

فلسطینیوں کے عزم و مضبوط ارادوں نے ساری دنیا میں اسے ایک ناجائز ملک ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ امریکہ اسے اپنی گود میں سنبھالے ہوئے ہے۔اور غزہ کے لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ یہ کے گلاب بِن کِھلے ہی مرجھا جاتے ہیں۔ یہاں کی کلیاں بھوک کی عفریت کے پیروں تلے مسلی جاتی ہیں۔ اسرائیل مکمل طور پر ہوائی حملوں کے ساتھ ساتھ زمینی حملوں کی بھی تیاری کر چکا ہے لیکن اسے جان لینا چاہیئے کہ وہ اپنی فوج کشی کے ذریعہ نہ صرف سارے مشرقِ وسطیٰ بلاکہ عالمی امن کو خطرہ میں جھونک رہا ہے۔ اور اسے یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ آج بھی فلسطینی مائیں کہتی ہیں کہ ہماری گود بانجھ نہیں ہوئی ۔ اس میں آج بھی ایوبی کے فرزند جنم لیتے اور پرورش پاتے ہیں۔ کیونکہ یہ فلسطین ہے ، یہاں کل کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی