دے جا سخیا راہ خدا

Blind Beggar

Blind Beggar

ایک اندھا فقیر چوک میں ” دے جا سخیا راہ ِ خدا” کی گردان کرتے ہوئے بھیک مانگ رہاتھا ایک شخص نے ترس کھا کر اسے دس روپے کا نوٹ دیا جو اتفاق سے پھٹا ہوا تھا وہ شخص ابھی چند قدم ہی چلاہوگا کہ پیچھے سے اندھے فقیر نے آواز دی سخیا!پھٹا نوٹ ہی دیدیا۔۔

وہ شخص واپس پلٹا حیرانگی سے اس نے فقیر سے پوچھا تم تو اندھے ہو پھر کیسے پتہ چلا نوٹ پھٹاہوا ہے۔۔فقیر نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا میں اندھا ہوں یا نہیں ہوں تم تو اندھے نہیں ہو ۔۔ پھٹا نوٹ دیتے شرم نہیں آتی۔اخبار ہی کی خبر ہے سعودی عرب میں ایک بھکارن کے مرنے کے بعد اس کے کٹیا نما گھرسے کروڑوں مالیت کے کرنسی نوٹ اور سکے ملے۔۔۔ اپنے وطن میں بھی ایسی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں پاکستان ہی نہیں بہت سے ممالک میں بھیک مانگنا ایک صنعت بن گئی ہے علاقوں کی باقاعدہ خرید و فروخت ہوتی ہے کراچی ، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں زیادہ بارونق یا معروف مزاروں اور گنجان آبادیوں میں فقیروں کے دادا برسر ِ پیکار رہتے ہیں ایک دوسرے کی برتری یا مداخلت پر لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں اور قتل بھی۔۔۔

اب تو اس کاروبار میں بھی مافیا کا راج ہے انہوں نے اس کیلئے بڑے سائٹیفک طریقے اپنا رکھے ہیں ان کے اپنے کئی گروپ بیک وقت کام کر رہے ہوتے ہیں کچھ لوگوں نے اپنے گینگ بنا رکھے ہیں کچھ افراد کا کام صرف بچوں کے اغواء تک محدود ہے یہ بارونق علاقوں سے بچوں کو بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور قریبی مقامات پر اپنے ساتھیوں کے حوالے کر دیتے ہیں ریلوے اسٹیشن ، لاری اڈہ، مزارات ان کے خاص اہداف ہیں بردہ فروش لاوارث، حالات کے ستائے یا غریب والدین کو بچوں کو ملازمت کا جھانسہ دے کر لے جاتے ہیں اوراگلی پارٹی کو فروخت کر کے دام کھرے کرلیتے ہیں۔۔۔ گینگ کے کچھ کرتا دھرتا بھیک مانگنے والوں کی نگرانی پر مامور رہتے ہیں تاکہ ان کی آمدن کا مستقل ذریعہ بھاگنے کی کوشش نہ کرے یہ لوگ انتہائی ظالم،عیاش اور بے رحم ہوتے ہیں ایک اندھا فقیر چوک میں ” دے جا سخیا راہ ِ خدا” کی گردان کرتے ہوئے بھیک مانگ رہاتھا ایک شخص نے ترس کھاکر اسے دس روپے کا نوٹ دیا جو اتفاق سے پھٹا ہوا تھا وہ شخص ابھی چند قدم ہی چلاہوگا کہ پیچھے سے اندھے فقیر نے آواز دی سخیا!پھٹا نوٹ ہی دیدیا۔۔ وہ شخص واپس پلٹا حیرانگی سے اس نے فقیرسے پوچھا تم تو اندھے ہوپھر کیسے پتہ چلا نوٹ پھٹاہوا ہے ۔۔فقیرنے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا میں اندھا ہوں یا نہیں ہوں تم تو اندھے نہیں ہو ۔۔ پھٹا نوٹ دیتے شرم نہیں آتی۔اخبارہی کی خبرہے سعودی عرب میں ایک بھکارن کے مرنے کے بعداس کے کٹیا نما گھرسے کروڑوںمالیت کے کرنسی نوٹ اور سکے ملے۔۔۔ اپنے وطن میں بھی ایسی خبریں سننے اور پڑھنے کوملتی رہتی ہیں پاکستان ہی نہیں بہت سے ممالک میں بھیک مانگنا ایک صنعت بن گئی ہے علاقوںکی باقاعدہ خریدوفروخت ہوتی ہے کراچی ، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں زیادہ بارونق یا معروف مزاروں اور گنجان آبادیوں میں فقیروں کے دادا برسر ِ پیکار رہتے ہیں ایک دوسرے کی برتری یا مداخلت پر لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیںاور قتل بھی۔۔۔اب تو اس کاروبار میں بھی مافیاکاراج ہے انہوںنے اس کیلئے بڑے سائٹیفک طریقے اپنا رکھے ہیں ان کے اپنے کئی گروپ بیک وقت کام کر رہے ہوتے ہیں کچھ لوگوںنے اپنے گینگ بنارکھے ہیں کچھ افراد کاکام صرف بچوںکے اغواء تک محدود ہے یہ بارونق علاقوں سے بچوں کو بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور قریبی مقامات پر اپنے ساتھیوںکے حوالے کردیتے ہیں ریلوے اسٹیشن ،لاری اڈہ، مزارات ان کے خاص اہداف ہیں بردہ فروش لاوارث،حالات کے ستائے یا غریب والدین کو بچوںکو ملازمت کا جھانسہ دے کر لے جاتے ہیں اوراگلی پارٹی کو فروخت کرکے دام کھرے کر لیتے ہیں۔۔۔ گینگ کے کچھ کرتا دھرتا بھیک مانگنے والوںکی نگرانی پر ماموررہتے ہیں تاکہ ان کی آمدن کا مستقل ذریعہ بھاگنے کی کوشش نہ کرے یہ لوگ انتہائی ظالم،عیاش اور بے رحم ہوتے ہیں دن کو بھیک مانگنے والے بیشتر بچے رات کو ان کے جنسی تشددکا نشانہ بن جاتے ہیں جبکہ بیشتر خوبرو بھکارنیں غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر معاشرہ میں فساد کا سبب بنتی ہیں اکثر اوقات خوبرو بھکاری لڑکیاں نوجوان لڑکوں کو دیوانہ بناکر لوٹ کر فرار ہو جاتی ہیں۔ جبکہ ایسا بھی سننے میں آیاہے بھکاریوں کے ایسے گینگ بھی ہیں جن کی خواتین بھیک مانگنے کے بہانے تانک جھانگ کر کے سن گن لیتی ہیں اور رات کو ان کے مرد ڈکیٹیاں کرتے ہیں اس لئے عوام کو ایسے عناصرسے انتہائی خبرداررہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں تحقیقی صحافت کے بانی ریاض بٹالوی مشرق اخبار میں معرکة الارا فیچر لکھا کرتے تھے اس کیلئے وہ بھیس بدل کر مختلف حلیوں میں جایا کرتے تھے ایک روز ریاض بٹالوی نے بھکاریوں پر فیچر لکھنے کیلئے حلیہ بدل کردفترسے روانہ ہوئے تو انہوںنے رشید نامی چپڑاسی کو بھی اپنے ساتھ لے لیا سارا دن وہ داتا دربار،لاری اڈہ ،ریلوے سٹیشن ،مال روڈ اور دیگر مقامات پر بھکاریوں کی حرکات و سکنات ،طریقہ ٔ واردات اور دیگر باتوں کا مشاہدہ کرتے رہے شام ہوئی تو ریاض بٹالوی نے چپڑاسی رشید کو دفتر واپس کیلئے کہا۔۔۔

صاحب! آپ جائیں چپڑاسی نے جواباً کہا ۔۔میں تو اب یہی کام کروںگا مہینے کی تنخواہ تو ایک دن میں اکھٹی ہوگئی ہے۔۔۔اوریوں بھکاریوںمیں ایک کامزید اضافہ ہو گیا۔۔۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا رمضان شریف یا عیدین کے قریب فقیروں کے غول کے غول گروہ درگروہ شہروںمیں واردہوتے ہیں۔۔ ان کا حلیہ ، دل سوز صدائیں اور مکالمے اتنے زوداثرہوتے ہیں کہ لوگوںکو ان پر خواہ مخواہ ترس آنے لگتاہے کئی بھکاری اتنے ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ بھیک لئے بغیر جان چھوڑنے کو تیارہی نہیں ہوتے ۔۔۔ مذہبی نقطہ نظر سے بھی بھیک مانگنا انتہائی مکروہ کام ہے نبی ٔ اکرم ۖ کا فرمان ہے قیامت کے روز بھکاری کے چہرا سیاہ ہو گا۔۔۔اگر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ حقیقتاً بھیک مانگنے والے قابل ِ رحم نہیں یہ معاشرے کے ناسور ہیں جو لوگ واقعی مستحقین ہیں وہ سفیدپوش کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا معیوب سمجھتے ہیں ان کا خیال رکھنا مخیرحضرات کا مذہبی ،اخلاقی اور معاشرتی فریضہ ہے۔ سناہے ایک خوش لباس کسی کے انتظارمیں کھڑا تھا کہ ایک بھکاری لنگڑاتے ہوئے اس کے قریب آکر بڑی لجاحت سے کہنے لگا” سخی بادشاہ کی خیر !اللہ کے نام پر 100 کا نوٹ دیدو خوش لباس نے جان چھڑانے کے انداز میں کہا نہیں ہے چلو 50 ہی دیدو فقیرنے پھر سوال کیا معاف کرو۔۔۔خوش لباس پھر بولا کہا نا نہیں ہیں ۔۔۔فقیر بھی بڑا ڈھیٹ تھاکہنے لگامیرے سخی بادشاہ اچھا 10روپے ہی دیدو۔۔۔۔ خوش لباس نے زچ ہوکر کہا جائو بابا ۔۔کہہ دیا نہیں ہیں۔۔۔اگر تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے لنگڑا فقیر بولا پھر یہاں کیا کررہے ہو میرے ساتھ چلو اکھٹے مانگتے ہیں۔۔۔عوام کو اس صورت ِ حال سے بچانے کیلئے پنجاب کے ایک وزیر ِ باتدبیر نے کچھ نیا سوچا ہے انہوںنے قوم کو بھیک مانگنے کی لعنت سے نجات دلانے کیلئے” بیگرہوم منصوبہ” شروع کرنے کااعلان کیا ہے ویلڈن۔۔ویلڈن۔۔ اس سلسلہ میں صوبائی وزیر سوشل ویلفیئرپنجاب سیدہارون سلطان نے اپنی ترجیحات اور سفارشات تیارکرلی ہیں انہوںنے سچ کہا کہ بھیک مانلنے کو اچھے بھلے لوگوںنے پیشہ بنا لیاہے اس لئے اس کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کرلیاہے محکمہ سماجی بہبود فقیروںکو معاشرے کااہم فردبنانے اور انہیں مختلف ہنر سکھانے کیلئے اقدامات کرے گا اس کا بنیادی مقصد معاشرہ سے غربت کا خاتمہ کرکے انہیں خوشحالی کی طرف گامزن کرناہے سیدہارون سلطان ایک فعال اور متحرک وزیرہیں انہوںنے یقینا ایک اچھے کام کا بیڑا اٹھایاہے جس سے معاشرہ میں مثبت تبدیلی آنے کی توقع ہے ہم ان کی کامیابی کیلئے دعا گوہیں ویسے ایسے منصوبے ملک کے پانچوں صوبوں اور آزادکشمیر میں بھی شروع کرنا ناگزیرہیں ملک کو بیگرفری بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا حالات کا تقاضا بھی ہے اور معاشرے کو سدھانے کا ذریعہ بھی یقیناایسے اقدامات سے پاکستان کا امیج بہترہو سکتا ہے۔

Begging

Begging

دن کو بھیک مانگنے والے بیشتر بچے رات کو ان کے جنسی تشدد کا نشانہ بن جاتے ہیں جبکہ بیشتر خوبرو بھکارنیں غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوکر معاشرہ میں فسادکا سبب بنتی ہیں اکثراوقات خوبرو بھکاری لڑکیاں نوجوان لڑکوں کو دیوانہ بناکر لوٹ کر فرار ہو جاتی ہیں۔ جبکہ ایسا بھی سننے میں آیاہے بھکاریوں کے ایسے گینگ بھی ہیں جن کی خواتین بھیک مانگنے کے بہانے تانک جھانگ کرکے سن گن لیتی ہیں اور رات کو ان کے مرد ڈکیٹیاں کرتے ہیں اس لئے عوام کو ایسے عناصر سے انتہائی خبرداررہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں تحقیقی صحافت کے بانی ریاض بٹالوی مشرق اخبار میں معرکة الارا فیچر لکھا کرتے تھے اس کیلئے وہ بھیس بدل کر مختلف حلیوں میں جایا کرتے تھے ایک روز ریاض بٹالوی نے بھکاریوں پر فیچر لکھنے کیلئے حلیہ بدل کردفترسے روانہ ہوئے تو انہوں نے رشید نامی چپڑاسی کو بھی اپنے ساتھ لے لیا سارا دن وہ داتا دربار، لاری اڈہ ،ریلوے سٹیشن ،مال روڈ اور دیگر مقامات پر بھکاریوں کی حرکات و سکنات ،طریقہ ٔ واردات اور دیگر باتوں کا مشاہدہ کرتے رہے شام ہوئی تو ریاض بٹالوی نے چپڑاسی رشید کو دفتر واپس کیلئے کہا۔۔۔

صاحب! آپ جائیں چپڑاسی نے جواباً کہا ۔۔میں تو اب یہی کام کروںگا مہینے کی تنخواہ تو ایک دن میں اکھٹی ہوگئی ہے۔۔۔اوریوں بھکاریوںمیں ایک کامزید اضافہ ہوگیا۔۔۔ آپ نے اکثردیکھاہوگارمضان شریف یا عیدین کے قریب فقیروںکے غول کے غول گروہ درگروہ شہروںمیں واردہوتے ہیں۔۔ ان کا حلیہ ، دل سوز صدائیں اور مکالمے اتنے زوداثرہوتے ہیں کہ لوگوںکو ان پر خواہ مخواہ ترس آنے لگتاہے کئی بھکاری اتنے ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ بھیک لئے بغیر جان چھوڑنے کو تیارہی نہیں ہوتے ۔۔۔ مذہبی نقطہ نظر سے بھی بھیک مانگنا انتہائی مکروہ کام ہے نبی ٔ اکرم کا فرمان ہے قیامت کے روز بھکاری کے چہرا سیاہ ہو گا۔۔۔اگر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ حقیقتاً بھیک مانگنے والے قابل ِ رحم نہیں یہ معاشرے کے ناسور ہیں جو لوگ واقعی مستحقین ہیں وہ سفیدپوش کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا معیوب سمجھتے ہیں ان کا خیال رکھنا مخیرحضرات کا مذہبی ،اخلاقی اور معاشرتی فریضہ ہے۔ سناہے ایک خوش لباس کسی کے انتظارمیں کھڑا تھا کہ ایک بھکاری لنگڑاتے ہوئے اس کے قریب آکر بڑی لجاحت سے کہنے لگا” سخی بادشاہ کی خیر !اللہ کے نام پر 100 کا نوٹ دیدو۔

خوش لباس نے جان چھڑانے کے انداز میں کہا نہیں ہے چلو 50 ہی دیدو فقیرنے پھر سوال کیا معاف کرو۔۔۔خوش لباس پھر بولا کہا نا نہیں ہیں ۔۔۔فقیر بھی بڑا ڈھیٹ تھا کہنے لگا میرے سخی بادشاہ اچھا 10روپے ہی دیدو۔۔۔۔ خوش لباس نے زچ ہوکر کہا جائو بابا ۔۔کہہ دیا نہیں ہیں۔۔۔اگر تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے لنگڑا فقیر بولا پھر یہاں کیا کررہے ہو میرے ساتھ چلو اکھٹے مانگتے ہیں۔۔۔

عوام کو اس صورت ِ حال سے بچانے کیلئے پنجاب کے ایک وزیر ِ باتدبیر نے کچھ نیا سوچا ہے انہوں نے قوم کو بھیک مانگنے کی لعنت سے نجات دلانے کیلئے” بیگرہوم منصوبہ” شروع کرنے کااعلان کیا ہے ویلڈن۔۔ویلڈن۔۔ اس سلسلہ میں صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر پنجاب سیدہارون سلطان نے اپنی ترجیحات اور سفارشات تیار کر لی ہیں انہوں نے سچ کہا کہ بھیک مانلنے کو اچھے بھلے لوگوں نے پیشہ بنا لیا ہے اس لئے اس کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا ہے محکمہ سماجی بہبود فقیروں کو معاشرے کااہم فردبنانے اور انہیں مختلف ہنر سکھانے کیلئے اقدامات کرے گا اس کا بنیادی مقصد معاشرہ سے غربت کا خاتمہ کر کے انہیں خوشحالی کی طرف گامزن کرنا ہے سیدہ ارون سلطان ایک فعال اور متحرک وزیرہیں انہوں نے یقینا ایک اچھے کام کا بیڑا اٹھایاہے جس سے معاشرہ میں مثبت تبدیلی آنے کی توقع ہے ہم ان کی کامیابی کیلئے دعا گوہیں ویسے ایسے منصوبے ملک کے پانچوں صوبوں اور آزادکشمیر میں بھی شروع کرنا ناگزیرہیں ملک کو بیگر فری بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا حالات کا تقاضا بھی ہے اور معاشرے کو سدھانے کا ذریعہ بھی یقینا ایسے اقدامات سے پاکستان کا امیج بہترہو سکتا ہے۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی