زندگی بس اتنی ہی تھی؟

Morning

Morning

صبح دم جب دادا سورة یٰسین کی تلاوت کرتے تو اُس کی آنکھ کُھل جاتی تلاوت کی خوش الحانی جیسے قطرہ قطرہ وجود میں جذب ہوتی رہتی ۔امّاں نوراں دیسی گھی میں تر بتر نرم و ملائم پراٹھے،چینی کے سفید پیالوں میں۔ ایک میں ٹاہلی سے اُترا ہوا اصلی شہد ایک میںمکھن کا سفید پیڑا،ایک میں گھرکا جما تازہ دہی، ہری پیاز اور باریک کٹی ہری مرچوں والا پھُولا پُھولا آملیٹ دستر خوان پر سجاتی ،تو ہاتھ منہ دھوتے ہوئے وہ سوچتی آسودگی اتنی ہی تھی۔!

دن چڑھتے ہی ٹاہلی کے ساتھ بندھی پینگ(رسے کا جُھولا )پہ جا چڑھتی۔جُھولے لیتی وہ باہر کی دنیا کو دیکھنے کے لیے زور سے پینگ بڑھاتی جتنی زور سے جُھونٹا آتا اُتنا ہی دیوار کے اُس پار کی دنیا واضح ہوتی جاتی ۔وہ سوچتی اُمنگ اتنی ہی تھی۔۔۔۔!
دوپہر کو اُونچی چھت والے وسیع دالان میں نقشیں پایوں والے نواڑی پلنگوں پر سب کے سو جانے کے بعد بھی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور رہتی ۔چاندی کی گھنگریوں والا پنکھا جھلاتی اندھی بڑھیا پر نظریں جمائے وہ سوچتی رہتی ۔۔۔بے بسی اتنی ہی تھی!

سہ پہر کو ساری لڑکیاں آٹے کی چکی پہ لگے کنڈے پر جمع ہو جاتیں بڑا شغل لگتا باری باری کنڈے پر تُلتے ہوئے اسے احساس ہوتا وہ سب سے ہلکی ہے۔زیناںکہتی تھی جولڑکی بھائیوں کے اوپر پیدا ہو پھولوں کی طرح ہلکی
ہوتی ہے۔ اناروں کے باغ میں بہتی ندی پر بنے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے پل۔ساری لڑکیاں پانی میں پائوں لٹکا کر بیٹھ جاتیں ۔ندی کا پانی جب پائوں کے تلووں کو گدگداتا گلابی رنگت والی وہ چھوٹی سی لڑکی سوچتی ۔۔۔سر خوشی اتنی ہی تھی۔۔۔!

Evening

Evening

سر شام ہی گائوں میں اندھیرا پھیلنے لگتا ۔کریہہ صورت چمگادڑیں آسمان کا طواف کرنے لگتیں (اسے چمگادڑیں بہت بری لگتیں کہ بڑے کمرے میں رکھے آموں کے چھابے ان سے بھرے ہوتے تھے ) حویلی میں جگہ جگہ گیس کے ہنڈے جل جاتے تو وہ سوچتی ۔۔روشنی اتنی ہی تھی۔۔۔!

رات کو جب بھی آنکھ کھلتی مصطفی کی بانسری کی درد بھری لے سنائی دیتی۔ اس نے سنا تھا مصطفی کا پیار چھن گیا ہے وہ اسے ڈھونڈتا پھرتا ہے ۔وہ اس درد کو محسوس کرتی ۔۔اداسی اتنی ہی تھی۔۔۔!

پورے چاند کی رات اسے مست و بے خود کر دیتی ۔چکور پورے چاند کے گرد چکر کاٹتا ہے لڑکیاں بتاتی تھیں۔اور چکر کاٹتے کاٹتے گر کے مر جاتا ہے اس مرے ہوئے چکور کو کوئی بھی کتا کھا لیتا ہے تو بائولا ہو جاتا ہے ۔گائوں میں یہ روایت چکراتی پھرتی تھی ۔وہ بڑے غور سے چاند کو تکتی رہتی تھی کبھی سرہانے کے تلے سے چھپا ہوا آئینہ نکال کر اس میں چاند کو قریب کر کے دیکھتی ۔۔بے خودی اتنی ہی تھی ۔۔۔!

آدھے چاند کی رات تھی ۔ملگجے اُجالے میں تیز تیز چلتی ہوا،کھلے آسمان تلے چارپائی پر سیدھی لیٹی وہ سوچوں میں گُم ۔ہوا کا زور کا جھکولا آتا تو جگنوئوں کی اڑتی ڈاریں زمین سے جا لگتیں ۔وہ بھاگ کے اُن میں سے کئیوں کو مٹھی میں قید کر لیتی اور دادی کے ولائتی پائوڈر کے خالی ڈبے میں ڈالتی جاتی ۔جب ان کو اپنے کالے سیاہ بالوں میں اٹکائوں گی کتنے پیارے لگیں گے۔
جگنوئوں کو قید کرنے والی کو کب کسی نے اپنی مٹھی میں بند کیا پتہ ہی نہ چلا وہ سوچتی ہی رہ گئی ۔۔زندگی بس اتنی ہی تھی ؟؟؟

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر:مسز جمشید خاکوانی