زلزلہ 2005 کے متاثرین کی بدترین حالت زار

Earthquake 2005

Earthquake 2005

تحریر: علی عمران شاہین
وطن عزیز کی تاریخ کے بد ترین سانحہ یعنی زلزلہ 2005 کو 10 سال پورے ہو گئے۔ آج سے ٹھیک 10 سال پہلے پاکستان میں طلوع ہونے والا یہ دن پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کے لئے المناک تھا،جب ہولناک زلزلے نے لگ بھگ ایک لاکھ لوگوں سے زندگی چھین لی تو لاکھوں زخمی و معذور ہوئے۔اس سانحہ کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ آزاد کشمیر اور ہزارہ ڈویژن کے وہ اضلاع تباہ و برباد ہو گئے تھے، وہاں پہلے جیسے مکانات اور عمارتیں تعمیر ہو سکی ہیں اور نہ ہی لوگوں کا کاروبار بحال ہو سکا ۔ ہزاروںمتاثرہ لوگ جو ہمیشہ کے لئے معذور ہو گئے تھے، آج بھی ٹوٹے اعضاء گھسیٹتے نظر آتے ہیں۔

10سال پہلے جب یہ قیامت بیتی تب پاکستان میںجنرل (ر)پرویز مشرف کی حکومت تھی۔پرویز مشرف نے پہلے 3پھر 5سال کاوعدہ دے کر کہا تھا کہ وہ اس عرصے میں زلزلہ زدہ علاقوں کو پہلے سے بھی کہیں زیادہ بہتر اور ترقی یافتہ بنادیں گے اور متاثرین کا آخر دم تک ساتھ دیں گے۔اس دوران میںپاکستان کے ہر شہری کے ہر لحاظ سے بھر پور تعاون کے ساتھ دنیا بھر سے اربوں ڈالر کی امداد الگ سے آئی۔بے شمار ملکی اور غیرملکی رضاکار ادارے دن رات مصروف رہے تھے لیکن حالت کچھ زیادہ نہ بدل سکی ۔

زلزلہ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ مانسہرہ کا سیاحتی مقام اور3 لاکھ آبادی کا شہر بالاکوٹ صفحہ ہستی سے ہی مٹ گیا تھا۔بالا کوٹ میں داخل ہوں تو سب سے پہلے فلاح انسانیت فائونڈیشن کا ہسپتال اور اس کی ایمبولینس استقبال کرتی ہے۔ 10سال بعدتک یہاں کام کرنے والا یہ واحدامدادی ادارہ رہ گیا ہے جو آج بھی مفت طبی سہولیات مہیا کر رہا ہے۔اس سے آگے بڑھیں توساتھ ہی وہ گورنمنٹ ہائی سکول سامنے آ جاتا ہے جس کے صحن میں 100کے لگ بھگ شہید بچوں کی قبریں یہاں آنے والوں کوآج بھی رلا دیتی ہیں۔ یہاںایک منزلہ چند سرکاری عمارتیں بھی کچھ اچھی طرز پر بنی ہیں لیکن باقی سارا شہر عارضی ہی نظر آتا ہے۔

Balakot

Balakot

آج کا بالاکوٹ پہلے سے بھی بڑا تجارتی مرکز ہے کیونکہ دور دراز تک کے وہ لوگ جن کے علاقے ملیامیٹ ہو گئے تھے، یہیں آکر بس گئے ہیں ۔تھوڑا بلندی پر جا کر بالاکوٹ شہر پر نظر دوڑائیں تو پہاڑوں پر اور ان کے دامن میں ہر طرف سفید اور نیلے رنگ کے ایک جیسے ہزاروں عارضی گھروں کا سلسہ نظر آتا ہے۔ یہ تمام گھر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بنا کر دیئے گئے ہیں ۔اکثر متاثرین اب انہی عارضی گھروں میں رہ رہے ہیں۔ دو چھوٹے کمروں، ایک کچن اور ایک باتھ روم پر مشتمل یہ گھر آج کے بالاکوٹ کی پہچان ہیں۔افسوس کی بات کہ شہر کی منتقلی کے چکر میں تا حال یہاں کوئی جدید ہسپتال اورمضبوط طرز پرکوئی تعلیمی ادارہ بھی نہیں بنایا جا سکا ۔(کیسی حیران کن بات ہے کہ جس سعودی عرب کی ہم یمن جنگ میں مدد نہ کر سکے اور جس متحدہ عرب امارات کو ہماری دوستی پر ناز تھا،وہ ہم سے ناراض ہوا ،تو وہی زلزلہ کے وقت ہمارے سب سے بڑے مدد گار تھے جس کا ذکر آگے چل کر بھی آئے گا۔)

زلزلے کے فوری بعدبالا کوٹ میں دوبارہ پختہ تعمیر پر پابندی عائد کر کے اعلان کیا گیا تھاکہ موجودہ شہر سے 23کلومیٹر دور ”بکریال” کے مقام پر ”نیو بالاکوٹ سٹی” تعمیر کیا جائے گا اورمتاثرین کو وہاں بسایا جائے گا۔ اعلان تو یہ تھا کہ حکومت نیا شہر جدیدخطوط پر خود تعمیر کرے گیاا ور متاثرین کو صر ف وہاں رہنے کیلئے بلایا جائے گا۔ اس کے لئے زمین بھی خریدی گئی۔ اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے افتتاح بھی کیا ،کام بھی شروع ہوا لیکن10سال گزرے ”نیو بالاکوٹ سٹی” کیا تعمیر ہوتا؟ اس کی طرف جانے والی چندکلو میٹر سڑک بھی نہ بن سکی، یوں یہ منصوبہ مکمل طور پر کھٹائی میںجاچکا ہے۔ دوسری طرف لوگوں نے تھک ہار کر اپنی مدد آپ کے تحت جہاں جگہ ملی، گھر بنانے شروع کر دیئے۔

تباہ ہونے والے 5ہزار سے زائد سکولوں میں سے اب تک بمشکل چند سو ہی تعمیر ہو سکے ہیں ان میں سے تو اکثر بیرونی دنیا نے بنائے ہیں جن میں ترکی، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سب سے نمایاں ہیں۔یہی ممالک سارے متاثرہ علاقوں میں صحت عامہ کے اور تعلیمی ادارے بنا تے ہیں۔آج بھی بے شمار سکول خیموں میں کام کر رہے ہیں۔ ریاستی دارالحکومت مظفرآباد زلزلے میں سب سے زیادہ تباہ ہونے والے علاقوں میں سے تھا۔ یہاں اموات بھی بہت زیادہ ہوئی تھیں۔ 10 سالوں میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام یہیںہوئے۔

Construction

Construction

ترکی نے حکومتی سیکریٹریٹ اور ایک عالیشان مسجد تعمیر کی ۔ سعودی عرب نے یونیورسٹی اور بڑا ہسپتال بنایا ، جبکہ متحدہ عرب امارات نے بھی جدید ہسپتال بنایا ۔ سکولوں اور کالجوں کی تعمیر نو بھی انہی ممالک کی جانب سے کی جاتی رہی ۔یہاں بھی اکثر لوگوں نے جیسے تیسے گھروندے تعمیر کر لئے ہیں لیکن بہت سے لوگ خیموںاور فائبر گلاس کے عارضی گھروں میں رہ رہے ہیں۔یہا ں بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے عطیہ کردہ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے عارضی گھر ہر طرف نظر آتے ہیں۔شہر کی صفائی کی صورتحال انتہائی ناقص ہے۔ بیشتر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ دریائے نیلم کے پل پر پہنچیں تو سیدھاسامنے 8سال پہلے جلنے والے جماعة الدعوة کے بڑے ہسپتال کا ڈھانچہ آج بھی موجود ہے ۔اس سے 7کروڑ کا نقصان ہواتھا اور اہل کشمیر علاج معالجے کی ایک بہترین سہولت سے محروم ہو گئے۔

یہاں زلزلہ متاثرین کے لیے لائی گی 70لاکھ کی سی آرم مشین بھی جل گئی تھی جس کی خریداری کے لئے دس لاکھ روپے میاں نواز شریف نے بھی دیئے تھے۔ حکومتی وعدوں کے باوجود یہ ہسپتال دوبارہ نہیں بنا۔ جماعة الدعوة نے شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر”ریسکیو سنٹر”کے نام سے نیا اور منفردامدادی ادارہ بنایا ہے جوعوام کو ہر طرح کے ہنگامی حالات میں فوری مفت تعاون فراہم کرتا ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی دینی اور مذہبی جماعتیںزلزلہ زدگان کے لئے امدادی کام میں پیش پیش تھیں ۔ایدھی فائونڈیشن، الخدمت فائونڈیشن ،جماعة الدعوة،صفہ ویلفیئر، المصطفےٰ ٹرسٹ،فلاح انسانیت فائونڈیشن، اسلامی دعوت، الرحمت ٹرسٹ ، منہا ج ٹرسٹ، الاحسان ویلفیئر فائونڈیشن ، معمار ٹرسٹ،خدمت خلق فائونڈیشن اور دیگر ایسے ہی بے شمار اداروں کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی پارٹیوں کے لوگ بھی متحرک رہے تھے، جن کی خدمات کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

زلزلے سے تباہ ہونے والا تیسرا بڑا شہرباغ تھا۔مظفرآباد سے باغ کی طرف روانہ ہوںتو ایک بار پھر ٹوٹی پھوٹی اور تباہ حال سڑکیں جسم کا جوڑ جوڑ ہلا کر رکھ دیتی ہیں اور ڈیڑھ سے دوگھنٹے کا سفر کئی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔راستے میںبالاکوٹ اور مظفر آباد کی طرح کہیں شکستہ تو کہیں زیر تعمیرگھر اور خیمے نظر آتے ہیں۔ باغ شہرتو تقریباً پہلے کی طرح آبادہے لیکن شہر میںاب بھی ٹوٹی عمارتیں اور گھرموجود ہیں۔ باغ سے راولاکوٹ جانے والی سڑک پورے آزاد کشمیر میں اسے واحد سب سے اچھی سڑک قرار دیا جا سکتاہے۔زلزلے میں راوالاکوٹ شہر بھی بری طرح تباہ ہوا تھا۔ یہاں تعمیر نو کا کام کافی حد تک ہو چکا ہے۔

Self Help

Self Help

سارے زلزلہ زدہ علاقوں کے دورے میں جو بات بہت خاص طور پر دیکھنے میں ملتی ہے وہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت ہو یا پاکستان کی حکومت یا کوئی بیرونی این جی او ز یا بیرونی دنیا کا تعمیر نو کاسلسلہ… کسی نے مساجد اور مدارس کی بحالی اور تعمیر نو کا کام سرے سے نہیں کیا۔ چند نئی مساجد تو ضرور بنائی گئی ہیں لیکن پرانی زلزلہ زدہ مساجد کو مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت نماز کی ادائیگی کے قابل بنایا ہے یاان کی تعمیر نو کا کام کیا ہے۔ 10 سال گزرنے کے بعد آج بھی بے شمار مساجد کی حالت پریشان کن ہے۔ مساجد اور مدارس کی تعمیر نوکے لئے دینی ادارے ملک بھر تھوڑی بہت امداد فراہم کرتے رہے جس سے کچھ نہ کچھ مساجد اور مدارس کی تعمیر نو اور بحالی کا کام ہوا، وگرنہ باقی صورتحال ویسی ہی ہے

2005کے زلزلہ زدگان کے لئے دنیا بھر اور ملک بھر سے بے پناہ امداد آئی لیکن جس قدر امداد آئی، اس میں خردبرد ، لوٹ مار اور کرپشن بھی اسی پیمانے پر ہوئی۔حقیقت یہ ہے کہ اگر زلزلہ زدگان کے لئے آنے اور جمع ہونے والی امداد کا نصف بھی صحیح طورپر خرچ ہو جاتا تو زلزلہ زدہ علاقے پاکستان کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ علاقے بن چکے ہوتے۔ اس کا فائدہ ملک اورحکومت کو بھی بے پناہ ہوتاکیونکہ اس سے سیروسیاحت کابہترماحول میسرآتا۔اس سے ان لوگوں کا کاروبار بھی شروع ہوتا اور یہ لوگ بآسانی اپنے پائوں پر کھڑے ہوتے۔

وائے افسوس! ہمارے ملک کی روایت اندھی کرپشن نے زلزلہ زدگان کو بھی معاف نہ کیا۔یہاں حکومت صرف اچھی سڑکیں تیزی سے تعمیر کر دے، پانی کی فراہمی کا اچھا نظا م بنا دے، سکول اور مساجد کی تعمیر نو کر دے تو یہ اس کا سب سے بڑا احسان ہو گا کیونکہ اکثر زلزلہ زدگان نے تو اپنے سر چھپانے کی جگہ کسی نہ کسی طرح بنا ہی لی ہے اور باقی ماندہ بنا رہے ہیں۔وہ اپنے پیاروں کو 10 سال پہلے دفنا چکے ہیں، بیشتر متاثرین گھروں کا ملبہ خود ہی صاف کر کے نئی زندگی بھی شروع کر چکے ہیں ،جو رہ گئے ہیں وہ بھی کر ہی لیں گے۔ بس اب حکومت ان پر تھوڑا احسان کر دے اور اس احسان میں بالاکوٹ والوں کی مشکل کا بھی حل شامل کر لیا جائے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین