طالبان سے مذاکرات پر برہم لوگ….

Pakistan

Pakistan

پاکستان کے درپردہ اور کھلے مخالفین اس وقت ایک ہی صفحے پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ان میں سے بعض لوگ اور جماعتیں وہ ہیں جو فوج کی شدت سے مخالفت بھی ماضی میں کرتی رہی تھیں اور آج وہ سب سے بڑے فوج کے خیر خواہ اپنے آپ ظاہر کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض تو چنگھاڑچنگھاڑ کر ملک میں فوجی آمریت کو پھر سے بلاوادے رہے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے ہماری فوج کے ادارے پر خاک اڑائی تھی ،قائد اعظم کو قاتلِ اعظم بھی کہا تھااور ملک کے پرچم کو جلا کر بھی پوتر کے پوتر ہیں۔ مگر آج ان سے بڑا بظاہر فوج کا کوئی حمایتی ہے ہی نہیں۔ یہ تمام لوگ اپنے اپنے ایجنڈوں پر عمل پیرا ہیں۔
اب جبکہ تحریک طالبان نے ملک میں امن کے نام پر اپنے مذاکرات حکومتِ وقت سے شروع کر دیئے ہیں تو وہ بین الاقوامی ایجنٹ جو نام تو پاکستان کا لیتے ہیں اور وفاداری ان کی کہیں اور سے ہے۔وہ سب سے زیادہ ان مذاکرات کی مخالفت میں آگے دکھائی دیتے ہیں۔ شائد ان کی یہ کوشش ہے کہ پا کستان میں امن کبھی بھی قائم نہ ہوسکے۔ میرے اس پیارے وطن کو بعد کے دو آمروں میں سے ایک نے، اس ملک کو امریکہ کے حکم پرجہاد کے نام پر طالبان دیئے اور دوسرے آمر نے امریکہ کی جنگ اپنے سر لے کر اس ملک کی معیشت و معاشرت کا جنازہ نکال کراپنی چھپی بزدلی کا کھلا اظہار کر کے ہمیں اور ہمارے اِداروں کو ساری دنیا میں رسوا کر کے رکھدیا۔

ہر محب پاکستانی سمجھتا ہے کہ طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کر کے ایک مستحسن قدم اٹھایا ہے مگر بعض ادارے اور بعض لوگ اس اعلان سے خوش نہیں ہیں ۔کیونکہ انہیں جو ایجنڈا ان کے سر پرست ا علیٰ نے عطا کیا ہے یہ اُس سے ذرہ برابر بھی لگا نہیں کھاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اپنے ایجنڈے سے پیچھے ہٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں ۔اس ملک میں امن لانا ان کا ایجنڈا ہے نہیں بڑی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ایک مذہبی ٹولہ اس معاملے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو چیخ چیہخ کر کہہ رہا ہے کہ ان سے مذاکرات نہیں کرنا چاہئیں ،بلکہ ملک میں جنگ کا میدان سجا رہنا چاہئے۔مگر اُس کی اس ملک میں حیثیت بس اتنی ہے کہ ہے کہ انگلیوں پر گن لو ۔مگر ان کا اثر اس ملک میں بہر حال ہر طبقہ دیکھ سکتا ہے۔کیونکہ ایک دو سیاسی جماعتوں کے کندھوں کو یہ بڑے سلیقے سے استعمال کر رہے ہیں در پردہ اور ان کے ایجنٹ اس ملک کے امن واستحکام کودائو پر لگائے ہوے ہیں۔ان سب کا ایک الگ ہی ایجنڈا ہے جو پاکستان کو ہر گز مستحکم نہ ہونے دیں گے۔

اب جبکہ طالبان مذاکرات کی میز پر بیٹھ چکے ہیں اور دو ماہ ہونے کو ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وار ان ٹیرر کا خاتمہ ہو اور ملک میں سب سکون سے رہیں،اس اوقت حکومت بھی کچھ سہمی سہمی سی ہے۔مذاکرات میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔وزیر اعظم یہ یاد رکھیں کہ پاکستان کے دشمنوں کے حواری تو اس ملک میں تباہیاں پھیلانے میں لگے ہوے ہیں۔وہ چاہے الفاظ سے ہو ،کردار سے ہو، یا اسلحہ و بمبار سے ہو۔ان سے پوچھو کہ کیاسبی اسٹیشن پرراولپنڈی کا رختِ سفر باندھے ہوے جعفر ایکسپریس کی بوگی نمبر 9 میں بم دھماکہ کرنے اور کرانے والے طالبان تھے ؟؟؟جس میں 20سے زیادہ جانوں کا اتلاف ہوا اور 40 کے قریب لوگ زخمی ہوے۔ یہ طالبان اور امن کا مخالف ٹولہ ہے، جو ٹرین کے سانحے میں بھی طالبان کو ملوث قرار دے کر انہیں مذاکرات کی میز سے دھکا دینے کی کوششوں میں مصروف ِ عمل ہے ۔اس واقعے کے بعد اسلام آباد کی سبزی منڈی میں امرود کی پیٹی میں بم رکھ کر بم دھماکہ کرا کے اور غریب مزدور روں اور ریڑھی والوں کے گھروں میں اپنی بربریت سے اندھیرا بھر دیاہے۔یہ سانحہات گذرنے کے بعدبھی پاکستان میں امن کے دشمن وہی سابقہ راگ الاپ رہے ہیں ،کہ غریبوں کی یہ تباہی بھی طالبان نے ہی کی ہے ۔جبکہ طالبان نے اس واقعے کی ناصرف شدید مذمت کی ہے بلکہ یہ بھی واضح کیا ہے کہ بے گناہ انسانوں کا قتل گناہ عظیم ہے ۔اس بات سے کون واقف نہیں کہ جب طالبان کوئی معاملہ کرتے تھے تو وہ اُس واقعے کو برملا قبول بھی کرتے تھے۔ان سیکولرلوگوںکو طالبان کے اس بیان پر اعتبار اس لئے نہیں آرہا ہے کہ طالبان ان کی طرح کے فر یبی اور دروغ گو نہیں ہیں۔ ان لوگوں کو اس بات کی شدت سے تکلیف ہے کہ طالبان مذاکرات کی میز پر کیوں آگئے ہیں!!! در اصل یہ لوگ یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ یہاں پر امن و امان کا دور دورا ہو اور پاکستان کے لوگ سکون کے ساتھ اپنے کارواں کو آگے بڑھاتے رہیں۔

آج تو ایسی ایسی خطر ناک آوازیں اسلام مخالف سیکولر قوتوں کی جانب سے ملک میں آرہی ہیں جن کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ کردار کے لوگوں کی بھی پگڑیاں محفوظ نہیں ہیں۔ان میں زیاہ تر لوگ وہ ہیں جن کے قبلہ و کعبہ یا تو انگریز ہیں یا ہندو اور سکھ ہیں۔کوئی میرے کے قائد کے چاند سے چہرے پر سیکولرزم کی غلاظت ڈالنے کی کوششوں میں اپنے جھوٹے حوالوں سے مصروف ہے۔ تو کوئی شاعرِ مشرق کے خواب کو انگریز کا خواب بنانے پر تلا ہوا ہے۔ایک ایسا بھی دانشور دیکھا ہے جو شباب اور شراب میں نہانے اورغوطہ زن رہنے اور لاہور کی طوائفوں کے مجروں کو لاہور کا طرہ امتیازبنا کر اپنے آپ کو رنجیت سنگھ کی اولاد کہلوانے میںبالکل اُسی طرح فخر محسوس کرتا ہے جیسے بعض نا عاقبت اندیش راجہ داہر کو جس نے اپنے حرم میں اپنی بہن کو رکھا ہوا تھا ، کی اولاد اپنے آپ کو ظاہر کر کے فخرمحسوس کرتے ہیں۔

Islam

Islam

جبکہ اسلامی ان اور اسلام سے وہ بر ملا نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ا نہیں میں سے کوئی اس ملک میں لوگو ںکو ڈنڈے کی قوت سے ہراساں کر رہا ہے۔ تو کوئی اپنی چرب زبانی سے پرہیزگاروں پر پھبتیاں کس کر اپنی لتھڑی ہوئی بد بو دار انگلیاں اٹھا اٹھا کراُن پر شب و شتم کے پہاڑ گرا رہا ہے۔ پندرہویں صدی کے یہ سیاہ کار ہی شائد ہیں، جن کی وجہ اس صدی کو انتہائی فتنہ و فساد کی صدی سے تعبیر کیا گیا ہے۔جنرل کریسی کا اس ملک میں کچھ اور ہی ڈھنگ ہے ، ان میں کے چند گنے چنے افراد پورے ادارے کی بد نامی میں مصروف ہیں۔ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ سیاست دان کوئی دودھ کے دھلے ہیں،یہ وہ سیاست دان ہی تو تھے جنہیں اقتدار ملنا تو مشکل ہمیشہ سے رہا ہے۔مگر یہ طالع آزمائوں کی بیساکھی بن کر اس ملک کو ہمیشہ نقصانات کی طرف دھکیلتے رہے ہیں۔جس کے نتیجے میں ان کو بھی جوتیوں میں دال ملتی رہی ہے۔اور جو کہتے رہے تھے کہ ہم ہر بار اس آمر کا ساتھ دیتے رہیںگے جس نے جمہوریت کی کشتی کو ڈبویا ہوا ہے۔ ان بد طینت لوگوں نے اسلامی جمہوریہِ پاکستان کو امریکی جمبوریہِ فتنستان بنایا ہوا ہے۔جہاں ہر روز ایک نیا فتنہ پید کر دیا جاتا ہے۔تاکہ یہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا تصور ہی چھوڑ دے۔ جو اس ملک میں سب سے زیادہ لوٹ مار اور تباہی کے گڑھے کھودے گا وہ ہی آنے والے کل کا ہیرو بنا دیا جائے گا۔

آج امریکہ کی ایجنسیوں نے اپنی پالیساں تبدل کر لی ہیں اب وہ برائے راست اٹیک کرنے کیبجائے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے زیادہ تر کام لے رہا ہے کیونکہ ماضی میں وہ اس حوالے سے بہت ذلیل ہو چکا ہے۔سابق آمر پر امریکیوں نے اپنی زبانیں تو بند کی ہوئی ہیں مگر ان کے وہ تنخواہ دار جو اپنی نوکریوں کے معاہدوں پر خفیہ طور پر دستخط کر کے آئے ہوے ہیں وہ آپے سے باہر ہوے جا رہے ہیں ۔جنہوں نے اپنے لئے قانون اور آئین کچھ اوربنا یاہوا ہے اور پاکستانی عوام کو کسی اور آئین کے تحت ڈیل کرتے ہیں۔ یہ لوگ آئینِ پاکستان کو تو ایک کاغذ کا ٹکڑا کہتے ہیں اور ان میں سے بعض تو وطن سے غداری مرتکب ہونے کے باوجود اپنے آپ کو پاکستان کا سب سے بڑا وفادار کہتے ہیں ۔جو اس ملکِ پاکستان سے گذشتہ54 سالوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں ۔آج ان کھلاڑیوں کی دولت کا کوئی ٹھکانہ نہیںہے!!! ملک بچانے کے علاوہ ایسے لوگوں کے ہر قسم کے کاروبار چل رہے ہیں۔کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے؟یہاں تو مرا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہے!!!اس مملکت کے ملازم ہونے کے باوجود یہ لوگ اس ملک کے آئین کو نہیں مانتے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیر کے ہر ہر حصے ہر ہر کو نے کھدرے میں انتشار اور بد امنی کا لاوا پھل پھول رہا ہے۔پنجاب کے علاوہ پاکستان کے ہر صوبے میں کہیں کھلم کھلا اور کہیں درپردہ پاکستان کی تخریبوں کے مسلسل تانے بانے ہماری ڈنڈا بردار پالیسی کے نتیجے میں بنے جا رہے ہیں۔یہ لوگ آج کھا تو پاکستان کا رہے ہیں ،مگر ان کی وفا داریاں کہیں اور سے جڑی ہیں۔جو انتہائی قابلِ افسوس بات ہے۔

موجودہ فتنوں کو ختم کرنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ہمارے سیاست دانوں میں بھی مفقود ہی سی دکھائی دے رہی ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے طالع آزمائوں نے ان کی نرشمنٹ ہی نہیں ہونے دی ہے ۔کہ ملک میں بہانے بہانے سے ڈنڈا راج اپنی سازشوں کے ذریعے آدھمکتا رہا ہے۔طالبان سے مذاکرات پر برہم لوگوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوے اپنی متعصابانہ حکمت عملی کو تبدیل کر کے ملک کے مفاد میں کام کرنا ہوگا۔ورنہ ساحلِ مراد پر ہی ہم اپنی کشتی کو ڈبو دینے کے ذمہ دار ہونگے۔

Shabbir Khurshid

Shabbir Khurshid

پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com