کمیشن آف انکوائری ایکٹ میں ترمیم کی منظوری

Ishaq Dar

Ishaq Dar

تحریر : محمد اشفاق راجا
وفاقی کابینہ نے کمیشن آف انکوائری ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دی ‘ جس کے تحت بننے والا پاناما لیکس انکوائری کمیشن مکمل بااختیار ہو گا۔۔ کابینہ نے انفرادی فارن کرنسی اکاؤنٹس سے زرمبادلہ بیرون ملک بھجوانے پر ایک حد مقرر کرنے، او ای سی ڈی رکن ممالک کے ساتھ بینک کھاتوں کی معلومات کے تبادلے کی منظوری بھی دی۔ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے لے کر ایبٹ آباد کمیشن تک انکوائری کمیشن ایکٹ 1956ء کے تحت جتنے بھی کمیشن بنے ان سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو سکا تھا، اسی لیے اس کمیشن کو بااختیار بنانے کے لیے ہم ایک نیا قانون لے کر آئے ہیں۔

اگرچہ نیا انکوائری ایکٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جا رہا ہے اور وہیں بحث اور غور و خوض کے بعد اس کو متفقہ طور پر منظور کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ہو گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایکٹ منظور کرکے وفاقی کابینہ نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے، کیونکہ یہ اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر منظور نہیں کیا گیا، جبکہ حکومت نے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ پاناما لیکس کا معاملہ اپوزیشن کے ساتھ اتفاق رائے سے طے کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں اپوزیشن کے عدم اطمینان کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے پاناما لیکس کے معاملے پر وفاقی کابینہ میں منظور کیے گئے انکوائری کمیشن ایکٹ 2016ء کے بل کو مسترد کر دیا اور بااختیار اعلیٰ عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے قانون کا مسودہ سینیٹ میں جمع کروا دیا۔

قبل ازیں اپوزیشن جماعتوں کا ایک مشاورتی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں اپوزیشن لیڈر سینیٹر چودھری اعتزاز احسن کی زیر صدارت منعقد ہوا’ جس میں پاناما لیکس سے متعلق صورتحال اور بل کے مسودے کا جائزہ لیتے ہوئے اسے سینیٹ میں جمع کرانے کی منظوری دی گئی۔ اس صورت حال کے جائزے سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایکٹ اگر پارلیمنٹ میں منظور ہو بھی گیا تو اس سے پاناما لیکس کا ایشو حل نہیں ہو گا، نہ ہی ملک سے کرپشن کے مکمل خاتمے کی راہ ہموار ہو سکے گی، جس کے دعوے حکومت کے علاوہ اپوزیشن بھی کرتی ہے۔

Panama Leaks

Panama Leaks

اس طرح قوم کی یہ خواہش تشنہ تکمیل رہ جانے کا اندیشہ ہے کہ ملک کو کرپشن سے پاک کرکے یہاں ایک معتدل، ہم ا?ہنگ، انصاف پرور اور ایماندار معاشرہ تشکیل دیا جائے۔ پھر حکومت نے یہ قدم اٹھایا بھی ہے تو پانچ ماہ کی تاخیر اور طویل سیاسی کھچ کھچ کے بعد۔ یہی اقدام اس وقت کر لیا جاتا’ اس وقت جب یہ معاملہ سامنے آیا تھا، تو ممکن ہے آج صورت حال مختلف ہوتی۔ اس تاخیر سے حکومت نے تو سیاسی فائدہ اٹھایا کہ ان کے خلاف اس عرصے میں کوئی کارروائی نہیں ہو سکی، جن کے نام پاناما لیکس میں آئے اور اس دوران اب یہ معاملہ پرانا ہو چکا ہے اور لوگوں کی اس میں دلچسپی وقت گزرنے پر قدرے کم ہو گئی ہے۔

اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے کسی شخص نے اس دوران کبھی یہ سوچا کہ اس سے ملک کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا اور قوم کو مسلسل کس اذیت کا سامنا کرنا پڑا؟ اور کرپشن کے مکمل خاتمے کی کوئی تدبیر، کوئی سبیل نہ ہونے کی وجہ سے مزید کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا؟ ملک کے اندر ایک انتشار کی کیفیت ہے، کوئی بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتا’ سیاسی محاذ آرائی کا ماحول ہے، آپریشن ضرب عضب متاثر ہو رہا ہے، اداروں کی کارکردگی پر منفی اثر پڑ رہا ہے’ عوام ہیجان کا شکار ہیں، ہر روز سوال ہوتا ہے کہ کل کیا ہو گا؟ لیکن ان سارے معاملات، مشکلات اور مسائل کا کسی کو احساس ہی نہیں ہے۔ پہلے ٹی او آرز پر کئی ماہ ضائع کیے گئے، اب یہ نیا پنڈورا باکس کھول دیا گیا ہے۔

اپوزیشن نے سینیٹ میں اپنا مسودہ قانون جمع کرا دیا ہے’ یعنی اسے حکومت کی جانب سے کیے گئے اس اقدام پر یقین’ اعتبار اور اعتماد ہی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ ملک کو کس طرف لے جایا جا رہا ہے؟ کیا ہمارے ملک کے سیاست دان اس قابل بھی نہیں کہ سیاسی مسائل مل بیٹھ کر بات چیت اور صلاح مشورے سے حل کر سکیں؟ ہمیشہ پوائنٹ سکورنگ ہوتی ہے، ہمیشہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بارے میں یہ لوگ سوچتے ہیں۔ لیکن نیچا دراصل ایک دوسرے کو نہیں بلکہ پوری قوم کو دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔

Opposition

Opposition

محسوس یہ ہوتا ہے کہ جو کارروائی بھی کی جاتی ہے عوام کو محض دکھانے کے لیے کی جاتی ہے، اصلاح احوال مقصود نہیں ہوتا۔ چلو اگر حکومت نے یہی کرنا تھا تو اپوزیشن کو اس پر مطمئن کر لیا ہوتا تاکہ ایکٹ کی منظوری کے بعد بھی مسائل جوں کے توں رہنے کا اندیشہ باقی نہ رہتا اور ایک عرصے سے درپیش مسائل کے حل کی کوئی سبیل پیدا ہو سکتی۔ علاوہ ازیں اپوزیشن والے یہ دہائی نہ دیتے رہ جائیں کہ حکمرانوں نے اپنی مرضی کا قانون بنا دیا ہے۔

اس میں ہماری رضا مندی شامل نہیں۔ قانون تادیر قائم رہنے کے لیے ہوتا ہے، یہ کسی کے حق میں استعمال ہو سکتا ہے اور کسی کے خلاف بھی جا سکتا ہے۔ قانون موم کی ناک نہیں ہوتا کہ جب چاہا اپنی مرضی کے مطابق اس کو ڈھال لیا۔ قانون ایسا ہونا چاہیے جس کا استعمال ہر زمانے میں ہو سکے’ اور جس کا نفاذ حکمرانوں اور اپوزیشن سب پہ ہو اور جس کو منظور کرنے کا مقصد محض عوام کو طفل تسلی دینا یا حکمرانوں کو گرداب سے نکالنا نہ ہو۔

Ishfaq Raja

Ishfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا