عزم کی داستان ایک سائبان سایہ مہرباں

Father

Father

تحریر: وقارانساء
گرمی کی تپتی دوپہر جب ہر کوئی موسم کی تمازت سے بچنا چاہتا ہے اور کسی ٹھنڈی چھاؤں یا پنکھے اور اے سی کی ٹھنڈک میں سکون لیتا ہے ایسے میں ایک شخص اپنی ذمہ داریوں کے پیش نظر آرام کا سوچتا بھی نہيں- اس کا دھیان سردی گرمی دھوپ کی طرف نہيں جاتا وہ اپنی روٹین میں چلا جا رہا ہے کیونکہ اس کا دھیان اپنی روزی کی طرف ہے اور جب ذمہ داریاں ہوں تو کیا برف اور کیا ٹھٹھرتی سردی یا برسات کی جل تھل وہ اپنے کام پر رواں دواں ہے-اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ایک مزدور سے لے کر ایک بزنس مین تک سب ہی ساری زندگی بھاگ رہے ہیں اور وہ شخص کوئی اور نہیں ایک باپ ہے !۔

وہ قلعہ جس کے نيچے بیوی بچے محفوظ پناہ میں ہیں وہ سائباں جو ہر موسم کی شدت سے بچا لیتا ہے – ایک دست شفقت – ماں ہو يا باپ ان دونوں رشتوں کی حیثیت اپنی جگہ ہے – لیکن حقیقت ميں ماں گھر ميں اپنے بچوں کا بھر پور خيال رکھتی ہے تو باپ ان کی خوشی کا خیال رکھتا اور حتی الوسع آسائشیں مہیا کرتا ہے – اپنے گھر کے لوگوں کو ہر ممکن ضروریات زندگی فراہم کرنے کے لئے باپ کی انتھک محنت سے انکار نہيں کيا جا سکتا اس کے لئے اسے مزدوری کرنی ہو یا ہل چلانا ہو وہ کرتا ہے – ملازمت سے گھريلو ضروريات پوری نہ ہوں تو پارٹ ٹائم جاب بھی کر لیتا ہے۔

Food

Food

اس غریب کی زندگی میں گرم کھانا بھی کم ہوتا ہے قسمت سے کسی چھٹی والے دن اسے گرم کھانا میسر آجائے ورنہ وہ دن میں گھر سے لایا ہوا ہی کھانا کھا لیتا ہے –کچھ باپ اپنے ملک سے روزی کی تلاش ميں آئے ہوئے اکيلے زندگی گزارتے ہیں کبھی بھوکے پيٹ کام پر چلے جاتے ہیں اور کبھی دو دو تين تين دن کا باسی کھانا کھا کر اپنی گھر والوں کو پر آسائش زندگی فراہم کرتے ہیں ان کے لئے رات کے کچھ پہر ہی آرام کے ہوتے ہيں الصبح ايک لگی بندھی روٹين سے دن کا آغاز کرتا ہے – بچوں کی خواہشات پوری کرنے کے لئے تگ ودو کرنے والا ان کا باپ ہی ہوتا ہے۔

گرمی کی چلچلاتی دوپہريں جب سب پنکھوں کے نيچے آرام کر رہے ہوتے ہيں وہ اپنے کام ميں ہی جتا ہوتا ہے – اولے پڑيں بارش ہو يا برفباری وہ چھٹی نہيں کرتا – کبھی بھائی بن کر کبھی بیٹا اور کبھی باپ بن کر اس بچون کی تعلیم سے لے کر ان کی شادی تک سارا بوجھ اپنی ذمہ داری سمجھ کر اٹھانا ہے کیونکہ اسے گھر بھی چلانا ہے رشتے بھی نبھانے ہيں اس کی ذات کا بٹوارہ بیٹے بھائی پھر شوہر اور باپ بن کر ہوتا ہے ان سب سے نمٹ کر اس کا اپنی ذات کے لئے کچھ نہيں رہ جاتا – پھر ایسے میں بچوں کی طرف سے کچھ پیار بھی اس کے حصے میں نہ آئے!!۔

ايک باپ کو اپنی اولاد سے بے پناہ پیار ہوتا ہے – اب مغرب کی ديکھا ديکھی باپ کا دن بھی ايک تاريخ کو مخصوص کر ديا گيا – جب کہ ماں کی طرح ايک دن اس باپ کی شفقت اور محبت کا بدل نہيں – ان پیارے اور بے لوث رشتوں کے لئے ہر دن کی خاص ہے۔

Mother

Mother

کیوں کہ ان کو ايک تاریخ پر ہم نے یاد نہيں کرنا بلکہ ان کی محبت کو ہر دن یاد ررکھنا ہے گھر میں بچوں کی پسند کی کوئی چیز يا کھانا ہو یا ماں کو لگے کم ہے تو اس سے بڑی خوبصورتی سے دستبردار ہونے والی ماں ہوتی ہے – جو بھوک نہ ہونے کا یا پسند نہ ہونے کا بہانہ کر لیتی ہے جبکہ باپ وہ ہستی ہے جو اپنے لئے پيسہ بہت کم چرچ کرتا ہے اس کے پاس جو ہو وہ بیوی اور بچوں کو ہر عید تہوار اور شادی بياہ پر شاپنگ کروا ديتا ہے ليکن اپنے لئے يہی کہہ دیتا ہے کہ میرے پاس کپڑے ہیں مجھے ابھی نہيں خريدنا – اپنے باپ سے ضد کر کے اپنی فرمائشیں پوری کروانے والے بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں توان کے لئے اپنی زندگی سے کچھ وقت بھی نہیں نکال پاتے کہ ان کا شفیق باپ خوش ہو جائے – يہ صلہ تو ہر گز نہيں ان کی شفقت کا مگر انہيں ایک خوشگوار احساس ضرور دے جائے گا کہ ان کے بچے ان سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں اور اتنا ہی احساس کرتے ہیں جتنا کہ وہ ان کا کرتے رہے۔

دنیا بھر میں فادر ڈے منایا جا رہا ہے – لوگ اپنے ماں باپ سے ملتے ہيں –لیکن ھمارے مذھب کی خوبصورتی ہے کہ ھمارے بزرگ ھمارے ساتھ ہوتے ہیں تو اگر ہر روز اپنے والد سے بات نہيں کرسکتے تو آج ہی کر ليجئیے اور انہیں احساس دلائیے کہ آپ بھی ان سے بہت مجبت کرتے ہیں۔

تحریر: وقارانساء