سقوطِ موصل: سابق عراقی وزیراعظم سمیت بیسیوں افراد پر مقدمے کی سفارش

Iraq

Iraq

بغداد (جیوڈیسک) عراق میں ایک پارلیمانی کمیٹی نے ملک کے شمالی شہر موصل کے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے قبضے کے معاملے میں سابق وزیرِاعظم نوری المالکی پر مقدمہ چلانے کی سفارش کی ہے۔ مالکی کے علاوہ موصل کے سابق گورنر اثیل النجیفی سمیت 30 سے زیادہ دیگر حکومتی اہلکاروں پر بھی یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ان کی وجہ سے ہی یہ تنظیم موصل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔

شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے گذشتہ برس موصل کے علاوہ عراق کے مغربی اور شمالی علاقے میں کئی شہروں اور قصبوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ سفارش ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب ملک کے وزیراعظم حیدر العبادی نے فوجی کمانڈروں کے کورٹ مارشل کے لیے راستہ صاف کر دیا ہے۔

یہ وہ کمانڈر ہیں جو رواں برس مئی میں رمادی اور دوسرے شہروں پر دولتِ اسلامیہ کے جنگجوو¿ں کے حملوں کے دوران اپنی چوکیاں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ پارلیمانی پینل کے رپورٹ کی منظوری پینل کے 24 میں سے 16 ارکان نے دی اور اب پارلیمان میں پیر کو اس پر ووٹنگ ہو گی۔ عراقی پارلیمنٹ کے سپیکر سلیم الجبوری نے ایک بیان میں کہا ہے، ’ہر شخص عوام کے سامنے جوابدہ ہے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ قانونی عمل کو شروع کرنے کے لیے پارلیمانی پینل کی رپورٹ پراسیکیوٹر جنرل کے پاس بھیجی جائے گی۔

سپیکر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کی عدلیہ مجرموں کو ضرور سزا دے گی۔ رپورٹ میں نوری المالکی کے علاوہ جن اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے ان میں سابق قائم مقام وزیرِ دفاع سعدون الدلیمی فوج کے سابق سربراہ بابکر زیباری، صوبہ نینوا کے فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مہدی الغراوی، نینوا کے پولیس کمانڈر میجر جنرل خالد ہمدانی اور سابق نائب وزیرِ داخلہ عدنان الاسدی بھی شامل ہیں۔