گفتگو یا انداز گفتگو

Conversation

Conversation

تحریر : ممتاز ملک. پیرس
انسان کو اکثر گفتگو نہیں بلکہ گفتگو کا انداز مروا دیتا ہے ..ذلیل کروا دیتا ہے.ا سی لیئے کہتے ہیں کہ جہاں جتنی ضروری ہو وہاں اتنی ہی بات کی جائے . جو اکثر ہی ہم نہیں کر پاتے . کیونکہ یہ دنیا کا بہت بڑا آرٹ ہے .

ویسے تو عبادت بھی اللہ پاک سے گفتگو کرنے کا ہی ایک طریقہ ہے. اور اللہ پاک کو انسان کا اس سے گفتگو کرنا اسقدر محبوب ہے کہ اس نے اسے ہر پیغمبر کی امت پر لازم کیا ہے . عام گفتگو اور عبادت کی گفتگو میں فرق ہے تو پاکیزگی و طہارت کا ، خلوص نیت کا ،ایک جذب کی کیفیت کا ،خضوع و خشوع کا. اور اللہ پاک کے سکھائے ہوئے طریقہ اظہار اور مناسب الفاظ کا …..اللہ پاک انسان کی تمام کیفیات کو جانتا ہے اس لیئے جن اوقات میں انسان جتنی انرجی رکھتا ہے اس پر ان اوقات کی عبادات کا اتنا ہی بوجھ ڈالا گیا ہے ..

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بحث کرنا یا دلائل دینا بے ادبی کے دائرے میں آتا ہے . اور ابلیس نے بھی سب سے زیادہ عبادت گزار فرشتہ ہوتے ہوئے بھی اللہ پاک سے بحث کرنا چاہی تو مردود قرار پایا… جبکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اللہ پاک کو ابلیس کے دلائل پر ہی اعتراض تھا تو پھر اللہ پاک ابلیس کو عقل ہی کیوں دی تھی کہ وہ سوچے ..اللہ.نے پھر انسان کو عقل کیوں دی….

بحث تو وہی کریگا اور اختلاف بھی وہی کریگا جو اپنی عقل استعمال کریگا یا سوچ بچار کریگا . اور اللہ نے انسان کو عقل دی کہ وہ غورو خوض کرے .سوچ بچار کرے . تو پھر ابلیس شیطان اور مردود کیسے ٹھہرا….سوال تو اس نے اللہ پاک کی دی ہوئی عقل کو استعمال کر کے ہی پوچھا تھا ..تو اس کا جواب یہ ہی سمجھ میں آتا ہے کہ
کیونکہ اعتراض اور غضب دلائل پر نہیں تھا ابلیس کے تکبر پر تھا. جبھی اللہ پاک نے فرمایا کہ وہ شرک اور تکبر کبھی معاف نہیں کریگا.. کیونکہ اللہ واحد ہے اور تکبر صرف اللہ پاک کی ہستی کو ہی زیب دیتا ہے….

اور پھر سوال کرتے ہوئے وہ اطاعت کا فریضہ کیسے بھول گیا . اس نے زبان دانی دکھانے کے چکر میں اپنی اصل حیثت اور اختیار کی حد ہی بھلا دی . سو پکڑ اس کی اسنلیئے بھی شدید کر دی کہ جسے سب سے زیادہ علم دیا . .جسے سمجھ کا سب سے زیادہ دعوی تھا وہی اپنے انداز گفتگو کو اپنی حد میں نہ رکھ سکا . سو جتنا بڑا مقام تھا اسکے انداز گفتگو نے اسے اتنی ہی بڑی سزا ہا مستحق بنا دیا .
سو گفتگو کرتے ہوئے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ

* ہم جہاں بات کر رہے ہیں.وہ ہم سے براہ راست تعلق بھی رکھتی ہے کہ نہیں ؟

* ہمارا لہجہ اور الفاظ اس موضوع کے مطابق موزوں بھی ہیں کہ نہیں؟
* ہم دلائل دے رہے ہیں یا سامنے والے کی توہین کر رہے ہیں .

جہاں آپ کو محسوس ہو کہ سامنے والے کا انداز بے حیائی سے بھرا ہے . تو وہیں اپنی بات کو روک کر اسے چلتا کریں یا خود وہ جگہ چھوڑ دیں ..

یاد رکھیں ترکی بہ ترکی بکواس کرنا کسی کی کامیابی نہیں ہوتی . بلکہ ایسا کرنے والے کی ذہنی پسماندگی کی آئینہ دار ہوتی ہے . اور ایسے شخص سے ماتھا پیٹی کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ آپ کسی کے ساتھ بیٹھ کر لڈو کھیل لو.

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک. پیرس