کرپشن کی حکمرانی! پس چہ بائید کرد؟

Corruption

Corruption

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
پانامہ لیکس کے پنڈورا باکس کو کھلے ساڑھے چا ر ماہ سے زیادہ عرصہ بیت گیااور چار سو سے زائد پاکستانی افراد کے بیرونی ملک اربوں ڈالرز دفنا ڈالنے سے ان کا آج تک بال تک بھی بیکا نہیں ہوا اور شاید عوام کی نظر میں مستقبل قریب میں بھی نہ ہو سکے ۔اپوزیشنی صفوں میں بھی وکی لیکس ،پانامہ لیکس ٹائپ لیکسوں میں اربوں جمع کروانے والے لوگ بھی موجو د ہیںسرے محل ہمارا نہیں پھر ملکیت بن گیا اور بیچ کھایا یوں قصہ تمام ہوا ۔سوئس اکائونٹس کی بھاری رقوم بھی الم غلم ہوگئیں۔وزرائے اعظم گیلانی و راجہ اشرف اربوں ڈکار گئے کوئی کچھ بھی نہ کرسکا ۔نیب لاکھ کہیں کہ ہے مگر نہیں ہے۔بڑے مجرموں کے خلاف نہ کچھ کرتی ہے اور نہ کرنے دیتی ہے اس طرح ایک نیا این آر او ہی ہوئی نہ!ایسے مگر مچھوں پر اگر وہ ہاتھ ڈالتی توسرکاری خزانہ ہڑپ کر جانے والے یوں نہ دندناتے پھر رہے ہوتے۔

ضیاء الحق سے ملاقاتوں میں اسے قائل کیا گیا کہ بھٹو کی ملوں کو قومیانے والی پالیسی ذاتی عناد پر مشتمل انتقامی کاروائی تھی مجھ گناہ گار اور قومی اتحاد کے راہنمائوں کی مسلسل گزارشات سے اتفاق فائونڈری سمیت دیگر ملیں بھی اصل مالکان کو مل گئیں۔شریف خاندان کے نوجوانوں نے آگے بڑھ کر ضیاء الحق کو شیشے میں اتار لیا خصوصاً ضیاء دور کے ریفرنڈم میں جس میں صرف یہ سوال تھا کہ کیا آپ اس ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر میں صدر رہوں گا۔اس طرح کون احمق نفی میں جواب دے سکتا تھا۔مسٹر نواز شریف نے ضیاء کے دور ہ پر پورے لاہور میں بینروں کی اتنی بہتات کر ڈالی کہ مال روڈ پر درختوں کی جگہ صرف بینر نظر آتے تھے جس میں “مرد مومن مرد حق ضیاء الحق ضیاء الحق ” اور ساتھ بڑا فوٹو ضیا ء الحق کااور چھوٹا اپنا چھپایا ہوا تھا جس پر ضیاء نے کہا کہ اس نوجوان کو میری بھی عمر لگ جائے۔

ضیاء دور میں جعلی مجلس شوریٰ بھی نامزد ہوئی جس کے خلاف پریس کانفرنس کرنے پر راقم الحروف کو 9ماہ شاہی قلعہ میں آمرانہ تشدد سہنا پڑا۔شوریٰ کے ممبران کو اپنا کلہ مضبوط گاڑنے کے لیے اربوں کے فنڈز دیے گئے ۔اور کرپشن کی انتہا کرڈالی گئی نئے نو دولتیے سود خور سرمایہ دار پیدا ہو گئے اس میں کوئی شک نہیں کہ ضیاء الحق کی آمریت نے روس کا گرم پانیوں تک پہنچے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا مگرا سی دور میں کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا ۔لاکھوں افغانی آج تک پاکستانی معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ضیاء لحق کے طیارے کو حادثہ پیش آنے کے بعد لا محالہ پیپلز پارٹی نے بذریعہ الیکشن اقتدار میں پہنچنا تھا۔جس پر پوار ملک بھٹو اور اینٹی بھٹو دھڑوں میں بٹ گیا بعد میں وہی شریف خاندان جو مل قومیانے پر گھریلو اخراجات چلانے کے لیے میاں اظہر سے رقوم لیتا رہا تھا وہ حکمران بن کر کھربوں میں کھیلنے لگا اور آج ان کے شہزاد گان کھربوں ڈالر بیرون ملک پانامہ لیکس میں دفنائے بیٹھے ہیں۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

الیکشنی انتخابی فارم پر کرتے وقت ہر امیدوار کو اپنی اور اپنی بیوی اور بیٹے بیٹیوں کی جائدادوں ملکیتوں کی تفصیلات (منقولہ و غیر منقولہ) درج کرنا ہوتی ہیں۔مگر میاں صاحب نے اس خانہ میں بچوں کی جائداد خواہ وہ اندرون ملک تھی یا بیرون کا ذکر تک نہیں کیا۔جو کہ حقائق چھپانے اور جھوٹ بولنے کے مترادف ہے جب کہ ہر امیدوار فارم پر ایک حلفیہ بیان بھی درج کرتا ہے کہ اس نے کچھہ چھپایا نہیں ہے۔اآئین کی دفعہ,63 62کے مطابق کوئی جھوٹا فریبی فراڈی شخص ممبر اسمبلی نہ ہی بن سکتاہے اور نہ ہی بطور ممبر برقرار رہ سکتا ہے۔اس لیے نا اہلی کی جو تلوار اپوزیشن نے پانامہ لیکس کے ذریعے وزیر اعظم کی گردن پر رکھ دی ہے وہ صحیح ہے اور اس کی تیز دھار کسی وقت بھی اپنا کام دکھا سکتی ہے میاں صاحب کے والد بزرگوارسے بھلے وقتوں میں خاصی دعا سلام رہی وہ مل چھن جانے کا رونا رویا کرتے تھے اور پی این اے والے77کے جلسوں میں ملیںواپس کرنے کے وعدے کرچکے تھے۔

اس لیے اس بنا پر میاں صاحب کو احسن مشورہ دینااپنا فریضہ سمجھتے ہوئے گذارش کرتا ہوں کہ وہ خود ہی یہ بہانہ کرکے کہ چونکہ میرے بچوں کا نام پانامہ لیکس میں آگیا ہے اس لیے میں جب تک اس کی تحقیقات وغیرہ مکمل نہیں ہو جاتی وزیر اعظم کے عہدہ سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔اگر آپ ان الزامات سے کلئیر ہو جائیں تو دوبارہ وزیر اعظم بننے سے کون روک سکتا ہے ؟کیا اسپکیر قومی اسمبلی دوبارہ منتخب ہو کر اسپیکر شپ نہیں کر رہے ؟اگر اسی طرح الزامات کے گھنے سائے تلے بطور وزیر اعظم برقرار رہے تو اخلاقی پوزیشن تو متاثر ہوگی ہی قانونی کلہاڑا بھی کسی وقت چل سکتا ہے اسطرح منقولہ و غیر منقولہ جائداد بھی ضبط ہو گی جو خاندانی وقار اور عزت پر سیاہ دھبہ ہو گاعزت بچانے کا تو طریقہ یہی ہے کہ ذرا وزیر اعظم کی سیٹ سے آنکھ مچولی کھیل لیںکسی اعتمادی شخصیت کو نامزد کردیں تو فوت ہوجانے والے بھائی کی بیوی سے نکاح کر لینے کی طرح گھر کی بھاوج گھر ہی میں رہ جائے گی اور کچھ بھی نہ بگڑے گا۔

پھر اپوزیشن بھی زرداری ،گیلانی راجہ رینٹل کے کیسوں کی طرح سب کچھ بھول جائے گی ٹیمپو ٹوٹ جائے گا اور سمجھیںمعافی تلافی ہو ہی جائے گی۔نیب والے دوسرا طریقہ اختیار کرتے اور چار سو پانامہ لیکسی ملزمان کی گردنوں کے گردآہنی زنجیریں ڈالتے تو مال بھی دھڑا دھڑ سرکاری خزانے میں آنے لگ جاتا اور دیگر کرپشنی ناسوروں کو بھی دھڑ کا لگا رہتا۔مگر ایسا کیوں نہ ہو سکا صرف نیب والے ہی بتا سکتے ہیں مجھے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ عباسی نے راولپنڈی میں ایس ایچ او کو دھمکا کر زبردستی ملزم چھڑوا لیے اوربہاولنگر میںنشے میں دُھت ٹُن ٹولے کوچیکنگ سٹاف کی سڑک پر موجود چوکی پر روکنے کی کوشش پر اسلحہ سے فائرنگ کرکے جواب ملا اور مقدمہ اندراج پر حکومتی ایم این اے کی شکایت پر ڈی پی او شارق کمال کو ضلع بدر نہیں بلکہ صوبہ بدر ہونا پڑاتو دیگر سرکاری ملازم خواہ وہ نیب والے ہی کیوں نہ ہوں ایسی بلائوں اور کرپشنی مگر مچھوں کو چھونے سے بھی ڈرتے ہوں گے کہ ملازمت تو آخر سبھی کو پیاری ہوتی ہے کہ اس سے فارغ ہوجانے پر کون بیوی بچوں کو بھوکوں مار سکتا ہے؟۔

NAB

NAB

پولیس اور نیب والے ملزمان پر ہاتھ نہ ڈالیں تو جلسہ جلوس دھرنوں سے شریفوں کا کیا بگڑے گا؟ کہ بیورو کریسی اور سرکاری ملازمین بھی پی پی اور ن لیگی ادوار میں ہی بھرتی کیے گئے ہیں اس لیے وہ ان کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے شرماتے اور پھر گھبراتے بھی ہیں۔ویسے کئی ایس ایچ او بہت دلیر اور غیرت مند ہوتے ہیں کسی دیہاتی تھانہ کوٹ سبزل یا مروٹ کو ان چار سو “کرپشن بہادروں” کا کیس برائے تفتیش بھیج دیا جاتا تو انہوں نے ہفتہ دو کے اندر ہی سارا مال بھی برآمد کر لینا تھااور اپنی بقیہ زندگی کے لیے کھلی دال روٹی بنا لینی تھی جب ان بہادر کرپشنی پہلوانوں کو ‘مَنجی’لگایا جاتا،اس چھتر سے پریڈ ہوتی جس پر لکھا ہوتا ہے”آجا میرے بالما تیرا انتظار ہے “بازو اوپر کو باندھ کر رت جگے دیے جاتے۔

مرغا بنا کر اوپر بھرا ہوا پانی کا گھڑارکھا جاتا تو خزانے میں اتنا مال جمع ہو جاتا کہ آئندہ شاید قرض ہی نہ لینے پڑتے۔عوام کہتے ہیں کہ پانامہ لیکس سے توجہ ہٹانے کے لیے دہشت گردوں نے بھی انہی دنوں کوئٹہ جیسی مکروہ واردات کرڈالی اور مودی نے بھی دوستی نبھاتے ہوئے کشمیریوں کا قتل عام شروع کردیا ۔اپوزیشن الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کرچکی وہاں کچھ بھی فیصلہ ہو سپریم کورٹ سٹے آرڈر جاری کرسکتی ہے اور” Status Quo “جاری رہا توکیس کو لمبا کرنا وکلاء کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اپوزیشن کے پاس صرف جلد سماعت کا آپشن ہے اور نون لیگیوں کے پاس فیصلہ خلاف ہوتے محسوس کرکے حملہ کرکے ڈرا ڈالنے کا آپشن ہی باقی رہ جائے گا۔

جیسے ایم کیو ایم نے 11مئی کے واقعہ پرسندھ ہائیکورٹ کا گھیرائو کرکے کاروائی ختم کرواڈالی تھی۔اور اب تونام نہاد قائد نے پاکستان مردہ باد تک کے نعرے لگا ڈالے ہیں اور یہی بنگلہ بدھو شیخ مجیب نے کیا تھا۔ ساری قوم کی امیدیں خدائی امداد کی ہی آرزو مند ہیں کہ جب غریب بستیوں سے قافلے اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے تحریک کی صورت میں نکلیں اور سبھی کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے سارا مال برآمد ہو گا اور غداران ملت بھی کیفر کردار تک پہنچیں گے تبھی ملک اسلامی فلاحی مملکت بن سکے گا۔

Mian Ihsan Bari

Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری