آخر کرپشن کا انجام کیا ہوگا؟

Corruption

Corruption

تحریر: گلبرٹ لطیف خان
اس وقت ملک میں ایک ہوکا عالم ہے بے ہنگم شور برپا اور کرپشن کرپشن کی آوازیں ہر سوبلند ہیں۔ نیب کو ریفرنس مل رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری وساری رہے گا جب کہ تحقیق وتفتیش بھی شروع ہے ۔ افراد 90 دن کے ریمانڈ پر رینجرز کے حوالے کئے جارہے ہیں ۔منی لانڈرنگ کی جو 15 لاکھ خطیررقم کسٹم حکام نے پکڑی تھی اس سے کہیں زیادہ رقوم اسی طریقے سے 84 بار مختلف اوقات میں بیرون ملک منتقل کی گئیں۔سونے کی لانچیں بھی پکڑی گئیں۔یہ سیاسی جماعتیں جو اپنے آپ کو پارسا اور محب وطن سمجھتی ہیں اور ملک کا پیسہ اگر اسی طرح باہر جاتا رہا تو عوام جو پہلے ہی بجلی،گیس،پانی کے بحران اور بدترمہنگائی کی سزائیں بھگت رہے ہیں۔گرمی حبس اس قدر شدت سے ہوتی ہے پھر کھانا پکانے والی گیس کی لوڈشیڈنگ نے بھی شدید متاثر کیا ہے۔حکومت کو چاہیے تھا کہ ونڈملز کے کے ذریعے شمسی توانائی کے ذریعے اور چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائے جاتے پھر میرا خیال ہے کہ بجلی کی کمی بالکل نہیں ہے۔بس پبلک کو تنگ کیا جاتا ہے۔

حکمرانوں کے گھروں اور وزراء ومشیروں کوسپیشل لائینیں دی ہوئی ہیں۔ان کے گھروں میں بے تحاشا ایرکنڈیشنڈ لگے ہوئے ہیں اور وہ ان سے لطف اندوزہورہے ہیں۔دوسری طرف عوام کو مصیبتوں میں دھکیل دیاجاتا ہے۔ایان علی گزشتہ کئی ماہ سے عدالتون میں جاتی ہیں مگر ان پر ابھی تک فردجرم تک نہیں عائد کی گئی کیا اسکے پیچھے بارسوخ خفیہ ہاتھ کارفرما نہیں؟۔ملک کی سیاسی جماعتوں کو کھلی چھٹی ہے کہ اربوں کے حساب سے کرپشن کریں ان کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ جس ملک کا صدر مملکت ،وزیراعظم بھاری قرضے لے کر معاف کروائیں اور بوجھ غریب عوام پر تھوپ دیاجائے تو قانون کی بالادستی کدھر گئی؟ حکمران جب خود غلط کام کریں اور پھر ملک سے باہر بھاگ جائیں تو ان کے اللوں تللوں،عیش وعشرت اور قرضوں کا بوجھ غریب عوام ہی برداشت کریں گے اور نسل درنسل مفلسی تلے دبے رہیں گے ۔سوئیٹرزلینڈ سمیت بیرون ملک بنکوں میں دوسوارب ڈالر پڑے ہیں،ہیرے جواہرات لاکرز میں موجود ہیں اس کے علاوہ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں مہنگی مہنگی زمینوں پر عالیان بنگلے کوٹھیاں بنائی ہوئی ہیں۔

Accountability

Accountability

گھر کے ہر فرد کے پاس مہنگی کاریں ہیں۔ان کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی؟۔اب وقت آگیا ہے کہ ان کااحتساب کیا جائے ان کا احتساب ملک اور غریب عوام کے فائدے میں ہے۔عوام بھوکی مررہی ہے اور یہ لینڈ مافیا عیش وعشرت کی زندگی بسرکررہے ہیں۔حالانکہ انہوں نے اپنے بچوں کے لئے بیماریاں اور عذاب جمع کئے ہیں یہ اپنے ضمیر کوبیچ چکے ہیں۔پیسہ ان کا ایمان بن چکا ہے۔بچوں کے سامنے ان کے والدین کو چور کرپٹ کہا جائے وہ خامو ش رہیں۔ایک سیاستدان کی کہانی عجیب ہے۔مینڈیٹ چرائے،انصاف کاقتل کرے،کرپشن میں پکڑا جائے پھر رقم واپس کردے اور وکٹری کانشان بناکر باہر آئے۔دراصل نواب سرداروں اور وڈیروں جن کے پاس کے سو سومربع زمین ہے انہوں نے انہیں کاشت کے قابل بنانے کے لئے حکومتی خزانے اور بنکوں سے قرضے لئے مگر پھر خود معاف کروالئے۔

ملک کاکوئی وڈیرا ٹیکس ادا نہیں کرتا۔پھر ان کی بنجر زمینوں کو ان کے مزارعین نے جان دکھوں میں ڈال کر دن رات محنت کرکے جس طرح آباد کیا اور ہر فصل میں ان کو کروڑوں کا منافع دیا وہ اب بھی غلام اور ظلم سہہ رہا ہے۔ دیہاتوں میں کس کی مجال ہے کہ وڈیرے کی مرضی کے بنا کسی کو ووٹ دے۔ان کی زندگی کا مالک وڈیرہ ہے۔ملک میں کرپشن کا ناسور شائد ہی کبھی ختم ہو اس کا آخر انجام کیا ہوگا؟ غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔مزارعوں کی جوان بیٹیوں کو وڈیرے اٹھالیتے ہیں۔ازل کے غلام اپنی مرضی سے اپنی بچیوں کی شادی نہیں کرسکتے۔وڈیروں کے بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں جب کہ غریبوں کے بچے سلگتی دھوپ میں ماں باپ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔اپنے علاقوں میں سکول کھلنے نہیں دیے جاتے تاکہ شعور نہ پھیل سکے۔غریب تورونا بھی چاہیں تو رونہیں سکتے۔

ہر دور کے حکمران جھوٹے نعرے لگاکر ان سے ووٹ لیتے اور پھر مراعات لیتے ۔وزیرمشیر بن کر قرضے کھاتے اور پھر ملک سے باہر بھاگ جاتے کوئی پوچھنے والا نہیں۔آئین قانون انصاف گھر کی باندھی ہوتے ہیں۔حکمران میٹرریورس کرکے بجلی چوری کرتے کوئی پوچھتا نہیں۔فیکٹریوں ،ملوں میں گیس بجلی چوری کی جاتی ہے۔قدرت نے بھی انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے جنہوں نے کمیشن اور قرضے لے کر جائیدادیں بنارکھی ہیں۔مگر یادرکھیں ایک دن انہیں حساطب دینا ہوگا۔آئین توڑنے کا۔غریبوں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں کا۔ابھی بھی وقت ہے کہ جن لوگوں کے باہراکائونٹس بنکوں میں ہیں اپنی دولت باہر سے منگوا ئیں تاکہ ملک کے اندر خوشحالی آئے اور غریب بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔٭٭٭

Gilbert Latif Khan

Gilbert Latif Khan

تحریر: گلبرٹ لطیف خان