انسداد فضول خرچی ایکٹ

Indian Rupees

Indian Rupees

تحریر : عبدالحنان مغل
چند روز قبل بھارت کی قانون ساز اسمبلی یعنی لوک سبھا میں ایک بل پیش کیا گیا ،مجوزہ بل کے مطابق اگر کوئی بھی شخص شادی کے لیے 5 لاکھ بھارتی روپے تک خرچ کرے گا تو اسے شادی کے اخراجات کی مد میں خرچ کی گئی رقم کا 10 فیصد حصہ معاشرے کی دیگر غریب دلہنوں کو ادا کرنا پڑے گا۔ارب پتی لوگ 5 لاکھ کے عوض 10 فیصد ٹیکس کی ادائیگی حکومت کے ویلفیئر فنڈ کو کریں گے۔حکومت اس فنڈ کو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے خاندانوں کی بچیوں سمیت کم آمدنی رکھنے والے گھرانوں کی لڑکیوں کی شادیوں پر خرچ کرے گی۔اس بل کو ‘لازمی رجسٹریشن و انسداد فضول خرچی’ کا نام دیا گیا ہے ۔بل کے مسودے کے تحت حکومت نہ صرف اربوں روپے مالیت کی شادیوں پر ویلفیئر ٹیکس عائد کرے گی بلکہ شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے مہمانوں کی تعداد میں کمی سمیت اضافی کھانوں پر بھی پابندی عائد کرسکے گی۔اگر بھارتی پارلیمنٹ میں یہ بل پاس ہوگیا تو دنیا بھر میں مہنگی ترین شادیاں کرنے کے حوالے مشہور بھارتی ارب پتی یہ فریضہ سادگی سے انجام دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔

پاکستان میں بھی حالات اس کے برعکس نہیں ہیں۔یہاں کے لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اپنی شادیوں کویادگاربنانے اور جھوٹی شان و شوکت کے اظہار کیلئے بے دریغ پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔جب امیر لوگ شادی پر کروڑوں خرچ کرتے ہیں تو غریب آبادی میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔ شادی ایک خوبصورت بندھن اور مقدس فریضہ ہے۔لیکن ہمارے معاشرے کی تنگ نظری، نمودونمائش اور چاپلوسی نے اس رشتے کے ساکھ کو بھی بری طرح سے متاثر کیا ہے ۔ شادی کی اصل خوشی جو دو خاندانوں اور انسانوں کے ملاپ اور نکاح کی سنت پوری کرنے میں ہوتی ہے، مگر وہ ان ڈھول ڈھمکوں کے درمیان کہیں کھو کر رہ جاتی ہے۔ مادہ پرستی کا یہ فیشن اب اتنا عام ہو چکا ہے کہ جہاں دو پیسے خرچ کرنے ہوتے ہیں وہاں دکھاوے میں دو ہزار خرچ کردیے جاتے ہیں۔ حیرانگی اور افسوس اس بات پر ہے کہ ان چیزوں کو بہت حد تک ہمارے معاشرے میں راسخ کردیا گیا ہے۔

جو لوگ اِس خوشی کے موقع پر فضول خرچی سے روکنے کی ہدایت کرتے ہیں، اُن کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے انہیں کنجوس خیال کیا جاتا ہے، اور اِس سوچ کو پرانی اور فضول قرار دیتے ہوئے ناقابل عمل قرار دے دیا جاتا ہے۔ بات اگر خوشی کو پوری طرح منانے کی ہے تو خوشیاں کبھی بھی چیزوں یا مادہ پرستی کی محتاج نہیں رہیں، یہ تو بہت بے لوث سا احساس ہے، جس کا تعلق انسانوں کے دلوں سے ہے۔ دل دکھاووں اور بناوٹوں سے نہیں بلکہ ان میں بسے انسانی جذبوں سے سرسبز و شاداب ہوتا ہے، اور ایسے دلوں میں اطمینان اور خوشیاں بستی ہیں۔اسلام نے ہر موقع پر سادگی کی تلقین کی ہے اور فضول خرچی سے باز رہنے کی بار بار تاکید کی ہے ۔فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبہیہ کی گئی ہے اور ایسا کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق شادی جتنی سادہ ہوگی اتنی ہی زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوگی۔نبی کریم ۖ کی حدیث پاک بھی ہے جس میں آپ ۖ نے ارشاد فرمایا ”سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس پر خرچ کم ہو”صرف اپنی خوشی کیلئے فضول رسموں میں وقت اور پیسہ برباد کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔لوگ اس چکر میں کہ شادی کونسا بار بار ہونی ہے۔

ہر وہ غلط کام بھی کر لیتے ہیں جن کو وہ خود بھی اچھا خیال نہیں کرتے ۔میں سمجھتا ہوں ہمیں ان رسموں کے چنگل سے نکلنا ہوگا۔ہم لوگ دکھاوے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں۔کہ اگر کوئی سادگی اپنانا بھی چاہے تو ہم عجیب طرح سے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ہمارے ہاں کے ایم پی اے ہیں توفیق بٹ صاحب بتاتے ہیںکہ لوگ مجھے اپنی شادیوںکی تقریبات میں مدعو کرتے ہیں۔اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایم پی اے روایتی پروٹوکول کے ساتھ ہماری شادی میں شرکت کرے گا۔لیکن جب میں اکیلا چھوٹی سی گاڑی میں شادی میں شرکت کیلئے جاتا ہوں تو لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ میں ایسی شادیوں میں شرکت بہت کم کرتا ہوںجہاں نمودو نمائش ہو۔ سفید پوش اور متوسط طبقہ کے لوگوں کی سادہ شادیوں میں شرکت کرنا اعزاز سمجھتا ہوں۔ اگر اسی نظریے پر عمل کرتے ہوئے ہمارے حکمران اور دوسرے لوگ بے جا اسراف والی شادیوں کا بائیکاٹ کریں اور ہم مجموعی طور پر ایسی شادیوں کو معیوب سمجھنا شروع کر دیں تو لوگ سادگی اپنانا شروع کر دیں گے۔اور اس کے ساتھ ساتھ اگر ”انسداد فضول خرچی ایکٹ” بنا کر لاگوکر دیا جائے تو یقینا فضول خرچ میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ سنت رسول ۖ کے مطابق شادی کرنے سے معاشرہ بہ یک وقت کئی برائیوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

Abdul Hanan

Abdul Hanan

تحریر : عبدالحنان مغل