ہمیں بھوشن وھوشن کے چکر سے نکلنا ہوگا

Terrorism

Terrorism

تحریر: شہزاد سلیم عباسی
حد درجے کا سمارٹ ، شارپ، حاضر دماغ،بہاردر اور اپ ٹو ڈیٹ آدمی ہے ۔ میاں مٹھو کیطرح تیز تیز باتیں کرتا ہے ۔انٹرویو میں ایسے تیار ہو کے بیٹھا ہے جیسے وہ اس قسم کے امتحانا ت اور مرحلوں سے پہلے بھی گزر چکا ہو بلکہ چال ڈھال سے تو کسی سرکاری امتحانی مرکز کا سپرٹنڈنٹ اورچہرے کے خدو خال سے کسی دوسرے ملک کا آوارہ مجنوں لگتا ہے ۔ تڑ تڑ بولتا ہے ، ہنستا مسکراہتا ہے اور کبھی کبھی تو قہقہے بھی لگا لیتا ہے ۔کمال ہے ایسے تو دیسی فرنگی بھی نہیں کرتے جیسے غیر ملک میں آکر یہ پردیسی کل بھوشن کر رہا ہے ۔

ویسے بھارت کے نیول کے لوگ جاسوس، مخبر کم باغی زیادہ ہیں۔ 56 سال کا سرونگ نیول کمانڈر بنگلور کا ر ہائشی ہے ،1987 میں نیشنل ڈیفنس اکیڈ می میں بھرتی ہوا ۔کہتا ہے مجھے 2003 سے جاسوسی مشن کے لیے خاص طور پر تیار کیا گیا ۔اپنے ساتھ دو اور لوگ بھی بتاتا ہے اور خبردار بھی کرتا ہے کہ شاید وہ دونوں کہیں چھپے بیٹھے ہیں یا راہِ فرار اختیار کر چکے ہیں ۔تفصیل بیان کرتے ہیں کہتا ہے کہ نامی گرامی جاسوس کلر انیل کمار گپتا میرا آئیڈیل ہے اور بھارتی قوی سلامتی کا مشیر اصل انڈروولڈ ڈان ہے جو پاکستان بھر میں دہشت گردی کی حکمت عملیاں گاہے بگاہے ترتیب دیتا ہے ۔

BhushanYadav

BhushanYadav

۔فخریہ اندازمیں آگے بتاتا ہے کہ میں نے پاکستان میں آکر اپنی شناخت مسلمان نام سے رکھ لی ہے تاکہ با آسانی لاہورگلشن آبار پارک طرز کے دھماکے کرا کے لوگوں کو کشت و خون میں با آسانی رنگ دوں۔ اپنی آمد کی غرض و غایت بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی وارداتیں کرانا ، کراچی کا امن خراب کرنا میرامقصدزندگی ہے ۔ میں ایران سے تفتان کے ذریعے پاکستان میں سفر کرتا ہوں اور وہاں زیور کا کاروبار کھول رکھا ہے ، میرے پاس امریکہ، ایران، پاکستان، انڈیا کی کرنسی اور ان تمام ممالک کے نقشہ جات بھی موجود ہیں۔ میرا اگلا نشانہ گوادر پورٹ ،گیس ، ریلوے اور کراچی کی روشنیاں ختم کرنے کے لئے وہاں ٹائیگر فورس کا قیام ہے ۔ بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی اور دوسری علیٰحدگی پسند تحریکوں سے بھی میرے مضبو ط روابط ہیں ۔مدعا یہ بتاتا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ تیس سے چالیس لوگوں کو تربیت دے کر راء کا ایجنٹ بناؤ اور انکے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی مضموم کاروائیاں کر کے اپنے باس اجیت دیول کی خوشنودی حاصل کرسکوں۔ ہاں مہران بیس اور چوہدری اسلم وغیرہ میرے سنہرے کارنامے ہیں۔ لا پتہ یہ بھٹکتا دہشت گرد اپنا نام کل بھوشن یادیو بتاتا ہے ۔

ہمارے نیشنل سیکورٹی ایڈ وائزر نے کچھ عرصہ پہلے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر سے باضابطہ ملاقات کی(جو یہ کہتا پھرتا ہے شاید پاکستان بلوچستا ن کو کھو دے) اور پڑوسی ہونے کا حق نبھاتے ہوئے دہشتگروں کیطرف سے بھارت میں داخلے اور دہشتگردی کی بڑی کاروئی سے متنبہ کیا، اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا اور بتایا کہ 10 دہشتگرد بھارتی سرزمین کو خون آلود کرنا چاہتے ہیں جس پر بھارت نے جھٹ سے کاروائی کی اور دس میں سے 3 دہشتگردوں کو پکڑ کر پھانسی دے دی اور بھارت قیامت صغری دیکھنے سے بچ گیا۔

Pakistan

Pakistan

لیکن جواب میں ہم نے کیا دیکھا کہ دہشتگردی میں ملوث بھارتی حکمرانوں کا سیا ہ چہرہ نہ صرف پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو ہم سے چھینا چاہتا ہے بلکہ ہمارے لوگوں کا قاتل عام کرنا چاہتا ہے ہماری عبادت گاہوں کو نقصان پہچانا چاہتاہے ، ہماری اہم تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہتا ہے ، پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بڑھکانے کے لیے ہمارے لوگوں کو خرید کر آپس میں لڑاتا ہے اور سنی کو شیعہ سے ، شیعہ کو سنی سے لڑاتا ہے ،بھارت میں پاکستان مخالف جذبات پڑھائے جاتے ہیں اسی لیے بھارت نہ صرف بھارتی مسلمانوں پر گھیرا تنگ کیے ہوئے ہے چاہے وہ کسی بھی شعبے سے ہوں بلکہ بنگلہ دیشی حسیناؤں کو بھی اُکسا اُکسا کر وہاں کے مسلمانوں پر ظلم کراتا ہے

وہاں موجودپاکستان پسند بنگلہ دیشی مسلمانوں کو پہ درپہ پھانسیاں دلوا رہا ہے ۔بات یہ نہیں کہ ہم بھارت کے خلاف ہیں! ہم تو صرف بھارتی حکمرانوں کے کالے ، زہریلے، بد بودار ، مکار رویوں اور ناپاک عزائم کے خلاف ہیں جنکی بدولت پاکستان، بنگلہ دیش ،افغانستان اورایران میں بے امنی پھیلی ہوئی ہے اور اب تو بھارتی حکمرانوں کے گناہوں کی سزا امریکہ ، فرانس، ترکی ، اور یورپین ممالک بھی کاٹ رہے ہیں۔ تالی دوہاتھ سے بجتی ہے پتہ نہیں ہمارے حکمرانوں کو یہ بات کب سمجھ آئیگی؟ ہم بھارتی حکمرانوں کو آموں اور ساڑیوں کے تحفے ضرور بھجوائیں پر امن کی آشا کے دیپ تو دونوں طرف سے ہی جلے گے نا! ہم جب بھی بھارت سے کچھ معاملات ٹیبل کرنا چاہتے ہیں یا پیس پراسس کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تو ہمیں ا نکی سیوا کے لیے جانا پڑھتا ہے ، پھر اگر کوئی ان دونوں میچ وغیر ہ ہوں تو وہ ہارنا پڑھتے ہیں اور بعض اوقات تو بھارت سے صلاح کیے بغیر ہمارا سٹیٹ فارورڈ قومی بیانیہ بھی نہیں آتا۔

Rana Sanaullah

Rana Sanaullah

رانا ثنا ء اللہ نے بتایا کہ ہم نے پنجاب میں بھی انفارمیشن بیسڈ آپریشن (آئی بی اوز) شروع کر دیے ہیں بہت اچھی بات ہے انکو جاری رہنا چاہیے اور اسکا دائرہ کار پورے ملک میں یکساں بڑھانا چاہیے۔ہمارے قومی سلامتی کے مشیر جناب ناصر جنجوعہ نے بھارت کو دہشتگردی کے حوالے سے خبردار کر کے اچھی گڈ ول بھی بنائی اور ساتھ ہی ساتھ قومی بیانیہ بھارت کو بھی گیا ہے کہ اگر آپ لوگ پٹھا ن کوٹ واقعے پر زیادہ اچھل کود کرو گے اور ڈائیلاگ کی میز پر نہیں آؤ گے تو ہم تمہارا باقی نیٹ ورک بھی دھر لینگے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا ہنگامہ ہونے سے پاکستان بال بال بچ گیا ، اتنی بڑی تباہی سے اللہ نے ہمیں بچا لیا تو ہم پھر بھی انکے جاسوس کو بغیر کسی تھرڈ ڈگری ٹارچر کے طشتری میں رکھ کر پوپچھ رہے ہیں کہ ہاں بھائی! مذاکرات کی راہ اختیار کرنی ہے یا تمھارے اور لوگ پکڑیں !! کیا اسکا مقصد پیس پراسس کا راستہ کھولنا ہے ؟بین الاقوامی فورمز پر رسائی حاصل کر کے کشمیر کامسئلہ حل کرانا ہے ؟پاک بھارت کرکٹ ڈپلومیسی ہے ؟انٹرنیشنل کرکٹ اور فلم انڈسٹری کی راہ کو ہموار کرنا ہے ؟پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کو بھارت میں متعارف کرانا ہے؟

بتایا جائے کہ آخر ہم بھارتی جاسوسی، بھارتی تخریب کاری، بھارتی جارحیت ، بھارتی بموں کے تحفوں کوکب تک برداشت کرینگے؟بھارت اسٹیٹ ٹیرارزم پر کبوتر نہیں بلکہ عقاب کی طرح چکنا رہنا ہوگا۔ پاکستان کو اب یہ معاملات اقوامِ متحدہ سمیت تمام بین الا قوامی فورمز پر اٹھانے ہونگے اور دھڑلے سے بات کرنی ہوگی کیونکہ یہ امن کی آشا واشا کوئی چیز نہیں ہے اگر ہوتی تو آج بھارتی حکمرانوں کی کھوپڑی میں یہ بات آچکی ہوتی اور امریکہ ڈکٹیر کو بھی اسکی نزاکت کا انداز ہ ہو چکا ہوتا ۔خدا خیر کرے ویسے تو کل بھوشن یادیو کا ڈراپ سین بہت جلد نظر آرہا ہے اللہ کرے میرا یہ تجزیہ سفید جھوٹ ہو۔ ہم بحیثیت قوم جس بھی شعبہِ ہائے زندگی میں ترقی کرنا چاہیں،جس بھی فورم پر پاکستان کو پیش کرنا چاہے ، ہمارا مقصد ہمارا ملک، ہماری قوم اورہمارا اسلام ہونا چاہیے ۔ ہمارا مطمئع نظر ہمارا پیارا پاکستان اور اسکی تعمیر وترقی ہونا چاہیے اور اب ہمیں اس بھوش وھوشن کے چکر سے نکلنا ہوگا ۔بقول شاعر ؂ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

Shahzad Saleem Abbasi

Shahzad Saleem Abbasi

تحریر: شہزاد سلیم عباسی