اے وطن کے سجیلے جوانوں

Raheel Sharif

Raheel Sharif

تحریر : سلطان حسین
آرمی چیف جنرل راحیل کی رٹیائرمنٹ کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے ایک طرف حکومت بے خوف ہوتی جارہی ہے اور دوسری طرف انہیں متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جوسیاستدان ان کے خوف سے ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ بھی بڑے دھڑلے سے واپسی کا اعلان کررہے ہیںادھر حکومت کے درباری بھی فوج کی بدنام میں جت چکے ہیں حکمرانوں کے درباری آئے روز کسی نہ کسی حوالے سے بیانات دے رہے ہیںاس حوالے سے حکمرانوں اور ان کے دربایوں کی اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے جو بھی حکمت عملی ‘ارادے یا خواہشات ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شاہد وہ پورے ہوجائیں گے وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ عام آدمی کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوررہے ہیں لیکن عام آدمی جو سمجھتا ہے وہ شاہد حکمران سنتے نہیں یا محسوس نہیں کرتے یا کرنا نہیں چاہتے ان دنوں جہاں فوج کے پورے ادارے کے خلاف بیان بازی ہو رہی ہے وہاں رخصت ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حوالے سے بھی افوہ سازی کی فیکٹری میں نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔

حالانکہ پوری عالمی دنیا ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کر رہی ہے حکمران اور سیاست دان ان کے جانے کے آرزومند اورعوام ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہش مند تھے انہوں نے حکومت کی طرف سے مدت ملازمت کے تین کی بجائے چار سال کرنے کی پیشکش بھی ٹھکرا دی تھی اور اس قانون کو آنے والوں آرمی چیفس کے لیے اپنانے کا مشورہ دیا اس کے باوجود حکمرانوں اور کرپٹ سیاستدانوں کو ہر وقت امپائرکی ”انگلی ” اٹھانے کاہی دھڑکا ہی لگا رہاانہیں ڈر تھا کہ وہ بعض ایسے اقدامات نہ اٹھا لیں جو ان کے مفاد میں تو نہیں البتہ ملک وہ قوم کے مفاد میں ضرور ہیں لیکن یہ کرپٹ حکمران اور سیاست دان یہ بھول گئے تھے کہ جس وقت جنرل راحیل نے پاک آرمی کی کمانڈ سنبھالی اس وقت ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر تھی آئے روز دھماکے اور خود کش حملے ہورہے تھے مساجد بھی محفوظ نہیں رہیں تھیں۔

لوگ عبادت کے لیے بھی جان ہتھلی پر رکھ کر جاتے تھے پورا ملک اور خصوصاََخیبر پختونخوا جس دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ملک کے مستقبل کے حوالے سے بھی شکوک و شہبات کا اظہار کیا جارہا تھایہی سیاستدان جو آج کل ملک کی خدمت کے بڑے بڑے دعوے کررہے ہیں اس وقت اپنی نجی محفلوں میں ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کررہے تھے لیکن جنرل راحیل نے بطور آرمی چیف ایک مدبر جنرل کی طرح اس صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے آج ملک میں بڑی حد تک امن آچکا ہے دہشت گردی پر بڑی حد تک قابوپالیا گیامعمولات زندگی رواں دواں ہوچکے ہیں اور عالمی سطح پر بھی اس کا اعتراف کیا جارہا ہے ڈومور کا مطالبہ کرنے والا امریکہ بھی ان کی صلاحیتوں کا معترف ہے پاک فوج کو بھی دنیا میں صف اول کی فورس مانا جارہا ہے۔

Raheel Sharif Meet Army Soldiers

Raheel Sharif Meet Army Soldiers

جنرل راحیل شریف کی تعیناتی کے وقت جہاں انہیں ایک عام آرمی چیف سمجھا جانے لگا تھا وہاں سیاسی لیڈروں کو بھی ان سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف غیر لچک دار اور سخت موقف اختیار کیا اور سانحہ پشاور کے بعد حکومت ‘بعض سیاستدانوںاورمذہبی لیڈروں کی بھرپور مخالفت اور دہشت گردوں کی خوفناک دھمکیوں کی پروا کئے بغیر ان کے خلاف جس طرح بلا تفریق کاروائیاں کیںاس سے امن و امان کی صورتحال میں بہتری آنے لگی ان کے ہی دور میںکراچی کا مسلّہ بھی بڑی حد تک حل ہوچکا ہے ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کوکافی حد تک ختم کیا جاچکاہے جو رہ گیا ہے اس کا خاتمہ بھی کیا جارہا ہے انہوں نے ہی بھارت کو بھی نکیل ڈال کراس کے جارحانہ عزائم کے غبارے سے ہوا نکالی ‘خارجہ پالیسی کو بھی درست سمت دلانے میں ان کردار موجود ہے ۔ملک میں اب تک کے آرمی چیفس میں راحیل شریف ایک مقبول ترین آرمی چیف کی حیثیت سے ابھرے اور یہی بات حکمرانوں اور سیاست دانوں کو کھٹکتی تھی ان کے اقدامات جوں جوں سامنے آنے لگے تھے تو ایک طرف اگر ملک سے دہشت گردی میں کمی آنے لگی وہاں کرپٹ سیاستدان اور حکمران بھی خطرہ محسوس کرنے لگے تھے جنہوں نے اندرون خانہ ان کے خلاف ایک محاذ بنالیا تھااور بیرونی طاقتوں نے بھی ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا۔

لیکن چونکہ انہیں عوام کی حمایت حاصل تھی اس لیے ان کے خلاف تمام سازشیں ناکام ہوگئیںکہتے ہیں کہ شادی کی ایک تقریب میں ایک جن آگیا تھا جن کو دیکھ کر لڑکیوں کی چیخیں نکل گئیں ایک بابا جی نے لڑکیوں کو وضو کرنے کا مشورہ دیا لڑکیاں وضو کرکے آئیں تو جن کی چیخیں نکل گئیں جنرل راحیل بھی کرپٹ سیاستدانوں کے لیے ایک جن ثابت ہوئے اور ان کے اقدامات اور ان کے دباؤ کی وجہ سے ان کرپٹ سیاستدانوں کی چیخیں نکلیں جو اب بھی سنائی دے رہی ہیں ان میں سے کسی نے دبئی میں پناہ لینے کی کوشش کی اور کسی نے امریکہ میں جائے پناہ تلاش کی کوئی لندن یاترا کرتا رہا تو کوئی ملائیشیاء میں سرنایہ منتقل کرتا رہا اورکوئی ملک میں ہی بچا ؤکی تدبیریں کررہا تھا۔اب ان کی ریٹائرمنٹ پر انہوں نے سکون کا سانس لیا ۔جنرل راحیل نے ہی کشمیر کے مسلّہ کوبھی عالمی سطح پر اجاگر کیا اور حکومت کو بھی اس پر مجبور کیا کہ وہ اس مسلّے کو عالمی سطح پر اٹھائے ۔ انہوں نے خود بھی اس سلسلے میں دورے کرکے دنیا کو کشمیر کے مسلّے کی سنگینی کا احساس دلایا۔

کشمیر کے مسلّے کو عالمی سطح پر اٹھانے کا کر یڈٹ لینے والی ن لیک کی حکومت جو بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے کو بھی کشمیر کا مسلّہ عالمی سطح پر اٹھانے پرانہوں نے ہی مجبور کیا اب جبکہ ان کی رٹیائرمنٹ قریب آرہی ہے اور وہ ایک آرمی چیف کی حیثیت سے 29نومبرکو رخصت ہو رہے ہیں تو ملک کے یہ کرپٹ سیاستدان اور حکمران سکون محسوس کررہے ہیں اور سب ان کی ریٹارمنٹ کاخیرمقدم کررہے ہیں لیکن جہاں تک عام آدمی کا تعلق ہے۔انہیں ان کی رٹیائرمنٹ کے فیصلے سے اختلاف تھا اور وہ کچھ مدت تک انہیں مزید دیکھنا چاہتے تھے جس کا اظہار گذشتہ دنوں جنوبی وزیزستان میں کیڈٹ کالج کے افتتاح کے موقع پر قبائل نے بھی کیاتھالیکن مزید رہنا اور نہ رہنا ان کا اپنا فیصلہ اور حکومت کے درمیان معاملہ تھا۔

Retirement

Retirement

اب جبکہ جنرل راحیل شریف نے ریٹائر ہورہے ہیں تو انہیں متنازعہ بنانے کی بجائے عزت سے رخصت کیا جائے انہوں نے ملک کی اس وقت بڑی خدمت کی جب قوم دلدل میں دھنسی ہوئی تھی اور سیاستدان بھی ملک کے مستقبل سے مایوس نظرآرہے تھے ۔شخصیات آتی جاتی ہیں لیکن جو شخصیات ملک وقوم کی خدمت کرتی ہیں وہ ان کی محسن ہوتی ہیں اور قوم انہیں مدتوں تک یاد رکھتی ہیںجنرل راحیل کو بھی لوگ مدتوں تک یاد رکھیں گے ۔ان کے جانشین کے طور پر بعض نام سامنے آئے ہیں ظاہر ہے ان میں سے ہی کسی ایک کو ان کی جگہ لینی ہے اللہ کرئے ان کا جو جانشین بھی آئے وہ اسی طرح ان کا مشن جاری رکھے جس طرح جنرل راحیل نے شروع کیا تھا۔ان کے خوف میں مبتلا سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بھی اس بات پر ٹھنڈے دل و دماغ سے ضرورغور کرنا چاہیے کہ اس سے پہلے بھی آرمی چیف گزرے ہیں انہیں نہ تو اس قدزیادہ محبت ملی نہ ہی ان سے رٹیارمنٹ کا فیصلہ کرنے یا اسے واپس لینے کی عوامی سطح پر اس طرح اپیلیں کی گئیں۔

آخر جنرل راحیل شریف سے ہی کیوںایسی اپیلیں کی جاتی رہیں اور کی جارہی ہیںیہ سوچنے والی بات ہے ؟؟یہ اپیلیں جہاں نئی آرمی چیف کے لیے زد راہ ہیں وہاں یہ سیاستدنوں اور حکمرانوں کو بھی دعوت فکر دیتی ہیں بشرطیکہ وہ اسے سمجھ جائیں۔انہیں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ فوج اس ملک کے دفاع کا ضامن ادارہ ہے ان ہی کی وجہ سے ہم سکون کی نیند سو رہے ہیں قدرتی آفات ہوں یا وطن کا دفاع یہ سب سے پیش پیش نظر آتے ہیں۔

اس لیے بحیثیت ادارہ اسے بدنام نہ کیا جائے اس ادارہ کے خلاف بات کرکے ہم ملک کی خدمت کرنے کی بجائے دشمن کے منصوبوں اور ارادوں کو تقویت پہنچا رہے ہیںیہ ہمارے وطن کے سجیلے جوان ہیں پوری قوم کو ان پر فخر ہے اورپوری قوم ان کے ساتھ ہے ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی اس کو سمجھیں۔

Sultan Hussain

Sultan Hussain

تحریر : سلطان حسین