کیا تیز سماعتی عدالتیں ہی اصل حل ہیں؟

Court

Court

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
فوجی عدالتوں کا قضیہ پھر اٹھ پڑا ہے یہ خصوصی عدالتیں 6 جنوری 2015 کو اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے دو سال کے لیے قائم ہوئیں۔جن کا 7جنوری 2017کوٹائم فریم ختم ہو گیا۔ اس دوران آرمی پبلک سکول کے سانحہ میں ملوث آٹھ افراد ،صفورا گوٹھ بس حملہ سماجی کارکن سبین محمودکے قتل،معروف صحافی رضا رومی پر حملے ،پریٹ ہوٹل دھماکہ ،بنوں کی جیل پر ہونے والے حملے ،فوجی پوسٹوں اور کئی اقلیتی اداروں پر حملوں کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔اس طرح فوجی عدالتوں نے کم وقت میں ایسے مقدمات کے جلد فیصلے کیے جو عام عدالتی نظام سے قطعاً ممکن نہ تھے بلاشبہ فوج کا کام ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہی ہے ۔مگر مشرقی پاکستان میں فوج اس لیے بالآخر ناکام ہو گئی جب بنگالیوں کو ہندوئوں نے ورغلایااوراندرونی خلفشار برپا ہوا مزید اپنوں کی غداریوں اور حکمرانوں کی مقتدر رہنے کے لالچ نے ملک کو دو لخت کرڈالا بنگلہ بدھو کو اگر نام نہاد سیاستدان نہ چھڑواتے تو شاید یہ سانحہ رونمانہ ہو تاثابت ہو ا کہ اکیلے سرحدوں کی حفاظت جب کہ مجرم ملک کے اندر وارداتیں کریں تو بیرونی تحفظ مشکل ہو جاتا ہے ان کی سرکوبی کے لیے ہی فوجی عدالتیں بنائی گئیں تھیں وگرنہ عدالتوں میں کیسز کئی کئی سال چلتے رہتے۔

ویسے بھی دہشت گردوں اور بڑے بڑے قاتل ڈکیتوں کے خلاف گواہی دینا خالہ جی کا واڑہ نہیں ہوتا۔ضلع بہاولنگر کے ایک مشہور ڈاکو قاتل نے کھلے بازار میں دو کاندار کو قتل کیاسارا شہر دیکھتا رہا۔کسی نے گواہی نہ دی”عدالت سے باعزت “بری ہوا آج بھی دندناتا پھرتا ہے بعد میں بھی قتلوں میں ملوث ہوا مگر کوئی بال بیکا نہیں کرسکا۔وکی لیکس پانامہ لیکس بہا ماس لیکس سرے محل راجہ رینٹل اور گیلانی کے مقدمات کی کیفیت بھی ایسی ہی ہے ۔اب فوجی عدالتیں تو ختم ہیںکئی سیاسی جماعتوں کو ان کی توسیع پر تحفظات ہیں۔

شاید وہ اس میں کوئی طریقہ کار کی تبدیلی چاہتی ہیں مگررانا ثناء اللہ کا فرمان دلپذیز کہ انہوں نے پہلے بھی مخالفت کی تھی اب بھی ان عدالتوں کی بھر پور مخالفت کروں گا”کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا” وزیر صوبائی ہیں اور یہ فیصلے مرکزی سطح پر طے ہو نے ہیںکیاکمپنی کی مشہوری کے لیے ایسی بڑھکیں ہیں ؟چمگادڑ سوتے وقت اپنی ٹانگیں اور پائوںآسمان کی طرف کر لیتی ہے کہ اس کا خیا ل ہے اگر آسمان گر پڑا تو وہ اسے رو ک لے گی۔یاد رہے کہ اسلام آباد آرمی سکول پرحملے کے بعد فوری فوجی کاروائیوںکاآغاز ہو گیا تھا۔انہوں نے “سرکار صاحبہ “سے پوچھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی فوری طور پر اسمبلیوںنے اس کی منظوری دی۔

Mustafa Kamal

Mustafa Kamal

کراچی کے مشہور دہشت گرد اپنے بچائو کے لیے نئی دو تین سیاسی جماعتوں کے پردوں میں چھپ تو ضرور رہے ہیں کروڑوں کا اسلحہ گھروں میں ڈمپ ضرور کر رکھا ہے مگرخدا کی پکڑ سے نہ بچ سکیں گے ان کے مقدمات بھی خصوصی تیز سماعتی عدالتیں ہی فیصلہ کر سکتی ہیں وگرنہ تو 9مئی کے وکلاء کے قتل عام پر سندھ ہائیکورٹ بھی اس کے گھیرائو کے بعدہاتھ کھڑے کر گئی تھی” مولانا” صاحب چونکہ حکومتی اتحادی ہیں اس لیے وہ تو “ہذ ماسٹرزوائس” ہی ہیں حالانکہ فوجی عدالتوں کی کارکردگی کے بارے میں قوم ،فوج اور حکومت تینوں کا موقف یکساں ہے ۔پاک فوج کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس کی ایجنسیوںکے جوانوں اور سیکورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران جانوں کے نذرانے پیش کرکے جن دہشت گردوں کو پکڑا ہے انھیں جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے ذریعے ہی مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں اگر سول عدالتوں میں اتنی استعداد ہوتی اور فوری انصاف کے تقاضے پوری کرسکتی۔

ملک و قوم کے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچاتی تودو سال قبل فوجی عدالتوں کے لیے آئینی ترمیم نہ لانا پڑتی سبھی جانتے ہیں کہ بعض ججز نے دہشت گردوں کے مقدما ت کی سماعت سے انکار کیا جب کہ گواہوں کے تحفظ کے مسائل الگ تھے پھر قوم کے بنیادی خدشات بھی یہی تھے کہ وکلاء اور ججوں کے مخصوص طریقہ کار کے باعث فیصلوں میںتاخیر ہوگی اس طرح دہشت گرد سزا نہ پاسکیں گے دہشت گرد سمجھتے ہیں کہ سول عدالتوں میں ان کے لیے گنجائش کے بہت پہلوہیںکاش کمانڈو جنرل لال مسجد کی طالبہ بچیوں کا قتل عام اور اکبر بگٹی کو ہلاک نہ کرواتاتو شاید حالات گھبمیرنہ ہوجاتے اب انسانیت کے جن دشمنوں نے مذہبی مقامات اور سیکورٹی اداروں پر حملے کیے وہ کسی رعایت کے کیونکر مستحق ہو سکتے ہیں؟۔

کراچی کا کومبنگ آپریشن،ضرب عضب ،دہشت گردوں کے خلاف کراچی آپریشن کے دوران جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ان کے استحکام اور بعد میں ان کے ثمرات سے بار آور ہونے کے لیے یہ لازم ہے کہ خصوصی تیز سماعتی عدالتیں کم ازکم ڈیڑھ دو سال کے لیے جاری رہیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے جس کے عزم کا اظہارجناب راحیل شریف اور موجودہ سرابرہ نے کئی بار کیا ہے سہولت کاروں سے نپٹنا ابھی باقی ہے مگر قوم یہ چاہتی ہے کہ اگر دوبارہ ایسی عدالتوں کو اختیارات ملیں تو خود کشیوں اور خود سوزیوں کی اصل وجہ مہنگائی کو بڑھانے والے مخصوص طبقے، جعلی ادویات و خوردنی و جعلی ملاوٹ شدہ اشیاء تیار کرنے والوں کا بھی مکمل تیا پانچہ کیا جائے۔کرپشنی کنگز خواہ وہ کتنے ہی بڑے حکومتی عہدوں پر براجمان ہوں سے بھی چھٹکارا دلوایا جائے۔

Mian Ihsan Bari

Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری