ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے ایام

MULTAN

MULTAN

تحریر:چوہدری ناصر گجر
جنوبی پنجاب کا شہر ملتان جسے مدینتہ الاولیاء یعنی اولیائے کرام کا شہر کہا جاتا ہے حضرت بہاء الدین ذکریا،شاہ شمس اور شاہ رکن عالم جیسے بزرگوں کے مزارات اسی شہر میں واقع ہیںحالیہ دنوں میں حضرت شاہ رکن عالم کے عرس کی تقریبات جاری ہیں جن کا آغاز دربار کے گدی نشین شاہ محمود قریشی نے دربار کو غسل دے کر کیا۔میرے دل میں بھی اللہ کے مقرب بندے کے دربار کی زیارت کا شوق ہوا تو اسی شوق کی پیاس بجھانے میں ملتان گیا۔ دربار شہر سے کئی سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے دربار ی کی عمارت تاریخی فن تعمیر کی عمدہ مثال اور قابل دید ہے دربار کا احاطہ بھی بہت وسیع ہے اوروہاں کے انتظامات بھی قابل تعریف ہیں دور دراز کے علاقوں سے لوگ جوک در جوک دربار پر حاضری دینے اور منتیں، مرادیں مانگنے کے لیے آرہے تھے کبوتر دربار اور اُس کے ارد گرد بڑی تعداد میں تھے جن کے کھانے کے لیے وافر خوراک بھی موجود تھی کبوتروں کی آوازیں ایسے محسوس ہو رہی تھیں کہ گویا وہ انتہائی مگن سے اللہ رب العزت کی حمد و ثناء میں مصروف ہیں جیسے جیسے دن ڈھلتا گیا خوبصورت اور پر سکون ماحول مزید نکھرتا گیا ایک اطمینان دل و دماغ پر غالب ہوتا گیا ایسا سکون جو کبھی کبھی نصیب ہوتا ہیرات گئے تک میں اُس دلفریب سکون سے لطف اندوز ہوتا رہا۔

دل کر رہا تھا کہ وقت یہیں ٹھہر جائے لیکن وقت تو ہوا کے گھوڑے پر سوار گزرتا گیا۔اگلی صبح دل چاہا کہ اس تاریخی شہر کی سیر کی جائے تو میں نے اندرون شہر کا رُخ کیا جو کہ ایک قدیمی فصیل سے گھرا ہوا تھا تنگ تنگ گلیاں،پرانی عمارتیں اور گنجان آباد علاقے میں زندگی پورے زور و شور سے رواں دواں تھی فصیل کے گرد چکر لگانے کی غرض سے میں چل پڑا تو فصیل میں موجود دروازوں میں سے حرم گیٹ اور بوہڑ گیٹ کے درمیان میں آکر رُک گیا جہاں مختلف کاروباری دوکانوں کے علاوہ گڈز ٹرانسپورٹ کے کافی بکنگ اڈے بھی موجود تھے وہاں رُکنے کا کوئی ارادہ تو نہیں تھا لیکن سڑک پر موجود گٹروں کے گندے پانی نے راستہ روک لیا تھا پھر کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے میں ایک سادہ سی چائے کی دوکان پر بیٹھ گیا تھوڑی دیر بعد میری نظر ایک پاگل شخص پر پڑی جو ایک طرف بیٹھا اپنی سوچوں میں گُم تھا میں نے اپنے قریب بیٹھے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا آپ اس پاگل کے بارے کچھ جانتے ہیں اس سے پہلے وہ شخص کوئی جواب دیتا وہاں موجود ایک اور شخص جو کھوتا ریڑھی چلاتا تھا وہ بولا کہ بابو جی یہ شخص شروع سے پاگل نہیں تھا یہ بھی میری طرح ایک مزدور تھا

Parking lots

Parking lots

پھر اُس نے ایک ادھوری زیر تعمیر بلڈنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چار سال پہلے اس جگہ ٹرکوں کے اڈے اور مختلف دوکانیں ہوا کرتیں تھیں جن سے قریباً 350 لوگوں کا روزگار وابستہ تھا یہ جگہ حکومت نے لوگوں کو عرصہ دراز سے کرائے پر دے رکھی تھی اور ماہانہ تمام دوکانوں سے ایک،دو لاکھ روپے حکومت کرایہ وصول کر رہی تھی یہ پاگل شخص بھی وہیں ایک اڈے پر مزدوری کرتا تھا اس کے خاندان کا دارومدار صرف اسی کی آمدن پر تھا لیکن ایک دن اچانک پتہ چلا کہ حکومت نے اس جگہ پلازہ بنانے کی خاطر تمام دوکانوں اور ٹرک اڈوں کو گرا دیا یکدم سب کا روزگار بند ہو گیا یہ شخص اُسی دن سے بہکی بہکی باتیں کرنے لگا اور آج یہ بالکل پاگل ہو چکا ہے غریب خاندان کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں تھے کہ وہ اس کا کوئی اچھا علاج کروا لیتے اور سرکاری ہسپتالوں کی حالت تو آپ جانتے ہی ہیں۔یہ کہہ کر اُس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ بابو جی آج کے دور میں غریبی ایک لعنت سے کم نہیں۔یہ باتیں سننے کے بعد میںاُس پاگل کو غور سے دیکھتا رہا پھر اُس ریڑھی بان سے پوچھا کہ کیا تم اس کے گھر کا پتہ جانتے ہو ؟اُس نے کہا اس کے گھر والے اندرون بوہڑ گیٹ ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں رہتے تھے اس کے پاگل ہو جانے کے بعد مالک مکان نے مکان خالی کرا لیا اور اب پتا نہیں کہ وہ لوگ کہاں ہیں ۔میں چائے کی دوکان سے اُٹھ کر اُس زیر تعمیر عمارت کی طرف چل پڑا جو بقول ریڑھی بان ایک پلازہ تعمیر ہو رہا تھا اُس بلڈنگ میں صرف بیسمینٹ اور اُس کے اوپر چھت تھی بیسمینٹ میں کوڑے کر کٹ،آوارہ کتوں کے ساتھ چند نشئی موجود تھے جبکہ اُس کے اوپر مختلف قسم کا سامان پڑا تھا

جو ٹرک مالکان نے سپلائی کے لیے بُک کر رکھا تھا ۔میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ جس پلازے کی وجہ سے ایک مزدور پاگل ہو گیا ، 350لوگ یکدم بے روزگار ہو گئے ،مزدوروں کے بچے بھوک سے بلکتے رہے وہ پلازہ چار سال میں ایک چوتھائی بھی مکمل نہیں ہوا ۔میں نے مزید لوگوں سے اس پلازے کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ مذکورہ پلازہ پاک گیٹ کے پاس پڑی خالی جگہ پر بننا تھا جس کے لیے تھانہ پاک گیٹ کی عمارت بھی خالی کروائی گئی لیکن سیاسی مخالفت کی بناء اور اقرباء پروری کیخاطر اس جگہ کو گرایا گیا۔ 2012ء میں اس جگہ پر موجود کرائے داران نے عدالت سے بھی رجوع کیا کہ کچھ وقت کی مہلت دی جائے عدالت کو ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بتایا کہ اس پلازے کے لیے دس کروڑ روپے کی گرانٹ موجود ہے اور بہت جلد ایک شاندار پلازہ اس جگہ کھڑا ہو گااور انہی لوگوں کو پلازے میں دوکانیں کرائے پر دی جائیں گی ۔ایک ایسے شخص کا بھی پتہ چلا جس کی عمر 35سال تھی اُس نے بھی عدالت میں اس پلازے کے خلاف رٹ دائرکی تھی اور آج اُس شخص کو بھی مرے ہوئے دو سال گزر گئے لیکن عدالت میں اُس کا ابھی تک کیس نہیں سُنا گیا۔لوگوں نے بتایا کہ اب ڈویلپمنٹ اتھارٹی والے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اب اس پلازے کو تعمیر کرنے کا فنڈ موجود نہیں ہے

Engineers

Engineers

اب یہ جوں کا توں رہے گا۔میں بجھے دل کے ساتھ وہاں سے اُٹھا اور اپنا سامان لے کر واپس اپنے شہر آگیا لیکن میں یہ سوچتا رہا کہ پلازے کے ٹھیکیدار،ٹی ایم او،انجینئرز،ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دیگر لوگوں نے تو اس پلازے کی آڑ میںغریبوں کا روزگار اور خوشیاں چھین کر اپناگھر بھر لیاانہیںپل بھر بھی غریبوں کی بد دعا اور عذاب الٰہی کاخیال کیوں نہ آیا اور پھر اسی ریاست سے تنخواہ لینے والے انصاف کے ٹھیکداروںاور حکمرانوں نے بھی یہ پوچھنا گوارا کیوں نہ کیا کہ غریبوں کی تو خیر ہے یہ آفتیں اُنکا مقدر ہیں لیکن چار سالوں سے اُس جگہ سے ریاست کوسالانہ لاکھوں روپے آنے والے ریونیوکے نقصان کا بھرمائی کون کرے گا۔ریاست اپنے باسیوں کی خوشحالی کی ضامن ہوتی ہے لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے ایک ایسی جگہ کہ جس کے باہر دو دو فٹ گندہ پانی کھڑا ہے وہاں سے لوگوں کا روزگار چھین کر کبھی نہ تعمیر ہونے والاپلازہ تعمیر کرنے کو ہی شاید حکومت ترقی سمجھتی ہے ۔

اس کی ایک وجہ اور بھی سمجھ آتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہونے والے اس کام کو مسلم لیگ (ن) والوں نے اپنی شان کے خلاف سمجھ کر بند کروا دیا ہو گا جو بھی ہو ہم سب کو اپنے مُلک اور اپنے لوگوں کی بھلائی کی خاطرلوگوں پرترقی کے نام پر عذاب مسلط کر کے کمائی کرنے والے کرپٹ لوگوںکے خلاف آواز بلند کرنی ہو گی اور انکا احتساب کرنا ہو گا ۔جو لوگ بھی اس پلازے اور اس جیسے مُلک بھر میں ترقی کے نام پر کبھی نہ مکمل ہونے والے پروجیکٹس میں شامل ہیں سب کو قانون کی گرفت میں لانا ہو گا ۔اگر ہماری حکومت حقیقی معنوں میں عوامی حکومت ہے تو اُسے ایسے لوگوں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لانی چاہئے اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم عوام کو ہی ووٹ کا فیصلہ کرتے وقت سوچنا ہو گا۔

Ch Nasir

Ch Nasir

تحریر:چوہدری ناصر گجر