یہ ہوتا تو ایسا ہوتا

Supreme Court

Supreme Court

تحریر : راؤ خلیل احمد
آے آرڈی کے دور میں میرا چھوٹا تے سوہنا مگر لمبا ویر یاسر قدیر کاچھے میں گھوما کرتا تھا، لہذا اس دور کی میں اس سے سند مانگوں مجھے زیب نھیں دیتا۔ چھوٹے بونگی مار جاتے ہیں بڑوں کو درگزر کرنا پڑتا ھے۔ اس سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹو کے دور میں جب کنفرم چور سے رسیدیں دیکھنے کے لیے سب سے بڑی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے تو ایک بے ہوئی بات کی رسید مانگنا حماکت کے سوا کچھ نھیں ،صرف ان سادے دوستوں سے جو میرے اس چھوٹے ویر کی علمی صلاحیت سے متاثر ہو کر غلط فہمی کا شکار نہ ھو جائیں کلیر کرتا چلوں کہ اتنی بڑی پارٹی کی لیڈر کے ساتھ ایسا ہاتھ ھوا ہوتا تو وہ منھاج القرآن کی لائف ممبر بنتں۔

اللہ انہیں قبر میں کروٹ کروٹ چین دے ، محترمہ ایک انتہائی سمجھ دار اور زیرک سیاست دان تھیں ۔ میں ان کی ممبر شپ کی سند دیکھا سکتا ھوں۔ آپ جانتے ہیں میں ٹھیک کہ رہا ھوں اس لیے آپ مجھ سے سند طلب نھیں کریں گے کیوں کہ آپ سب سمجھ دار ہیں ۔ جب آپ یہ سمجھتے ہیں تو پھر میرے چھوٹے ویر یاسر قدیر کی کریڈبیلٹی پے سوال تو ضرورآٹھے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! پر میں یہ بھی نھیں چاہتا کیوں کہ میرے اس ویر نے ابھی بہت آگے جانا ہے ، اگر سازشی دوستوں اورسیلفیوں سے بچ گیا تو۔

عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈہ پور اور تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات نعیم الحق کے واقعہ کی مزمت ہی بنتی ہے۔عوامی تحریک اور پی ٹی آئی کی باہم لڑائی کا اصل فائدہ نواز شریف مافیا کا ہو گا۔ لہذا پی ٹی آئی کو چاہیے کہ اگر وہ واقعی ہی نواز شریف کی مخالف ہے تو وہ مزید ایسے اقدام نہ کرے جن سے نواز شریف اور مضبوط ہو۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات نعیم الحق کو اگر عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈہ پور کا نھیں پتا تو خان صاحب کو ایسے سیکرٹری اطلاعات کی ضرورت نھیں ہونی چاہیے۔

خان صاحب نے 92 کا ورلڈ کپ جیت کر قوم کا سر فخر سے بلند کیا ، خان صاحب نے کینسر ہسپتال بناکر انسانیت کی خدمت کی ایک علیٰ مثال قائم کی، خاں صاحب نے یونیورسٹی بنا کر ایک احس اقدام کیا۔ سب قابل تعریف ہیں۔ مگر میرے عمر میں چھوٹے پر قد میں لمبے ویر یاسر قدیر ڈاکٹر قادری کے اوور سیز انسٹی ٹیوشن کوئی کانے کاچھے میں رہنے والا تو نھیں دیکھ سکتا پر تم کو تو اللہ پاک نے مختلف ماحول دیا ھے آپ تو دیکھ سکتے ہو ، دیکھنے اور سمجھنے کے باو جود آپ کا یہ ایٹی چیویڈ خارجیت کی باقیات سے متاثر زرور ہے !۔ “ن” والی زبان اور خارجییت کی زبان دونوں کا ایک ہی ساونڈ ٹریک ہے ۔ جس کی دھن میں آپ مست ھو۔

Imran Khan

Imran Khan

حقیقت یہ ھے زمانہ جنگ میں نظر دشمن پے ہوتی ہے اپنوں کی خامیاں دیکھنے کا ٹائم نھیں ملتا پسپائی یا شکست کے بعد وہی ھوتا ہے جو پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کا ہو رہا ہے ، لوگ عمران خان صاحب کو یوٹرن کا طعنے دے رہے ہیں وہ ذرا سوچیں تو کہ خان صاحب کیا کرتے۔ ان کی پوری مرکزی قیادت اور پنجاب کے تمام قائدین بنی گالہ میں قید ہو گئے تھے اور پنجاب بھر کے کارکن بھی بے یار و مددگار کیسے نکلتے جب کہ ایک طرف پولیس گرفتاریاں کر رہی تھی تو دوسری طرف ناکے ہی ناکے اور کنٹینر ہی کنٹینرز۔ آخری امید KPK کے قافلے سے تھی مگر وہاں سے بھی خٹک صاحب کے ساتھ چند ہزار لوگ نکلے اور وہ بے چارے پنجاب پولیس کی شلنگ کا 20 گھنٹے تک مقابلہ کر کہ چور چور ہو چکے تھے اور برہان کی رکاوٹ توڑنا ان کے بس کی بات نہیں رہی تھی اور آگے بنی گالا تک چھ مزید رکاوٹیں تھیں ۔ اب 2 نومبر کو اسلام آباد میں ہو کا عالم ہونا تھا اور عمران خان جملہ مرکزی اور صوبائی قائدین 2 نومبر کو بنی گالہ سے اسلام آباد نہیں پہنچ سکتے تھے چونکہ وہاں موجود 500 کارکن 10000 پولیس کا مقابلہ کیسے کر سکتے تھے؟۔ ایسے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک safe exit ملا جس کو avail کرلیا گیا۔ غلطی پلانگ کی تھی اگر یہ سب لوگ عمران خان کے ارد گرد جھپا مارنے کی بجائے اپنے اپنے حلقوں سے اپنے وٹروں کے ساتھ نکلتے تو صورتحال کچھ اور ہوتی۔

یہ درست ہے پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے جلسے شاندار ہوتے ہیں ، نارمل حالات ہوں تو دنیا بہت ہوتی ہے ، وقت کے فرعون نے یہ ثابت کر دیا ھے کہ ٹکر کی صورت میں بغیر مضبوط پلانگ کے اکیلی پاکستان تحریک انصاف کو کچھ نھیں کرنے دیا جائے گا۔ مضبوط پلانگ کی وجہ سے ہی 2014 میں پاکستان عوامی تحریک لاہور سے اسلام آباد پہنچی تھی انھی فرعونوں کا دور تھا۔

پاکستان کی بقاء اسی میں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اکھٹے چلیں ۔اور یہ صرف اسی وقت ممکن ھے کہ جب قائدین تحریک ڈاکٹر قادری اور عمران خان پر کوئی زمہ دار کمنٹ کرے تو اپنی عوقات کا خیال رکھے۔ عام فالور کوئی بات کہے تو اگنور کی جا سکتی ہے ۔ کوئی زمہ دار کہے کے روانی میں بردار کی جگہ فروش لکھا گیا۔ ناقابل برداشت ھے۔

اگر ان چیزوں کا خیال نا رکھا گیا تو جس طرح آج وقت کے فرعون نے بنی گالا میں محسور کر کے اسلام آباد کا راستہ گم کر دیا تھا اس کی مرضی کے بغیر آپ لوگ اسلام آباد میں داخل نھیں ھو سکے اسی طرح آنے والے الیکشن میں بھی پاکستان تحریک انصاف کا مینڈیت بنی گالا کی حد تک محدود کر دیا جائے گا۔ جو کسی بھی طرح پاکستان کے لیے اچھا نھیں ہو گا۔

Rao Khalil Ahmad

Rao Khalil Ahmad

تحریر : راؤ خلیل احمد