موجودہ عدالتی نظام تبدیل کرنے کی تیاریاں

Court System

Court System

تحریر: شہزاد، عمران رانا ایڈووکیٹ
چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ حلف اٹھانے کے دن سے ہی انقلابی اقدامات کرنے کے خواہاں نظر آرہے ہیں اِن کے نمایاں کاموں میں ماتحت عدالتوں کو کمپیوٹرائز کرکے آن لائن کرنے کا کام اور اب اِس کے ساتھ ماتحت عدالتوں میں زیرِ التواءمقدمات کو بھی فوری نمٹانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں تاکہ موجودہ عدالتی نظام تبدیل کیا جا سکے جس کا مقصد صرف اور صرف سائلین کے لئے انصاف کی فراہمی میرٹ اور وقت پر کرنا ہے۔ کمپیوٹرائز نظام کو اِس نئے نظام کے ساتھ منسلک کرکے تمام مقدمات کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا جائے گا تاکہ ترجیحی بنیادوں پر اِن مقد مات کے فیصلے کیے جاسکیں۔ اِ س سلسلہ میں سب سے پہلے لاہور پر توجہ دی جارہی ہے کیونکہ لاہور پنجاب کا سب سے بڑا شہر اور دارلحکومت ہے اور یہاں مقدمات کی تعداد بھی باقی ضلعوں سے کافی زیادہ ہے جس کے بعد اِس نظام کا دائرہ پنجاب اور پھر پورے ملک میں پھیلادیا جائے گا۔

سیشن جج لاہور نذیر احمد گجانہ نے چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ کو مکمل تفصیلات سے آگاہ کردیا ہے جس کے مطابق لاہور کی سیشن عدالتوں میںزیرِ التواءمقدمات کی تعداد 23 ہزار 551 ہے جبکہ ضلع کچہری،ماڈل ٹاﺅن کچہری اور کینٹ کچہری میں46ہزار 272 مقدمات زیرِ التواءہیں۔ اِ س کے علاوہ سول (دیوانی) عدالتوں میں زیرِ التواءمقدمات کی تعداد ایک لاکھ 10 ہزار 419 ہے۔

Case

Case

اِن مقدمات میں سب سے بڑی تعداد دیوانی مقدمات کی ہے جن کی عموماً کاروائی سست روی سے چلائی جاتی ہے جس کی وجہ سے کافی لوگوں کوناجائز فائدہ پہنچتا ہے۔ آج تک جو نظام چلا آرہا ہے اُس میںدیوانی مقدمات کی پیروی کئی پشتوں کی پشتیں کرتیںہیں یعنی دادا کے دائر کردہ مقدمے کا فیصلہ پوتے کی زندگی میںجا کر ہوتاہے۔ اِ س کی اصل وجہ مجموعہ ضابطہ دیوانی 1908میں موجود خامیاں ہیں جس میں بہتری کے لئے کئی بار ترامیم کی گئیں ہیں مگر سائلین کو اِ س کا خاص فائدہ نہیں ہوا بلکہ جعلسازی کا سہارہ لینے والے فوجداری کاروائی سے بچنے کے لئے یہی خواہش رکھتے ہیں کہ مقدمہ بازی دیوانی ہی چلتی رہے تاکہ جو حق پہ ہوگا خود ہی اِس نظام کی وجہ سے تھک جائے گا۔

موجودہ نظام میں بہتری لانا بہت ضروری ہے کےونکہ اِس طرح سائلین کی عدالتوں پراعتماد کی فضا بحال ہوجائے گی اور ہر کوئی انصاف کے لئے عدالتوں سے رجوع کرنے کا جواہاں ہوگا۔اِس سلسلہ میں سب سے پہلے مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898 اورمجموعہ ضابطہ دیوانی 1908 میں موجود نقا ئص دور کرنا بہت ضروری ہیںکیونکہ پرانے مقدمات کو نمٹانے کے لئے پہلے بھی قومی جوڈیشنل پالیسی 2009 لائی گئی تھی جس کے بعدچند ماہ پرانے مقدمات کی کاروائی کو تیز چلایا گیا مگر اب اُس پالیسی کا حال بھی پرانے نظام جیسا ہی ہوچکا ہے کیونکہ اب ججز اور وکلاءاُس پالیسی سے واقف ہوچکے ہیں۔

Justice

Justice

ہم جگہ جگہ بیٹھ کر بیرون ممالک کے عدالتی نظام کی تعر یفیں کرتے رہتے ہیں مگر جب ہمارے ہاں کوئی نظام میں بہتری کی صرف بات ہی کرے تو ہم اُس پر تنقید کرتے ہیں اوراُس میں خامیاںتلاش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مقدمات کی فوری سماعت سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے جبکہ جن بیرون ممالک کی مثالیں دیتے ہیں وہاں مقدمات کے فیصلے چند دنوں یا زیادہ سے زیادہ چند مہینوں میں ہوجاتے ہیں۔ محض نظام میں بہتری کی خواہش رکھنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ اب اِس فرسودہ نظام کو ٹھیک کرنے کی چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ نے جو ٹھان لی ہے تووہ اب اِسے پایہ تکمیل تک بھی پہنچائے تاکہ آنے والا وقت ماضی سے مختلف ہو۔ چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ جو کہ پہلے دن سے ہی بینچ اور بار کے تعلقات میں بہتری کے بھی خواہاں نظر آرہے ہیں اوراب دیکھنا یہ ہوگا کہ چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ ماتحت عدالتوں میں ”کیس مینجمنٹ “ کا جو نیا نظام لارہے ہیں وہ کامیاب بھی ہوتا ہے یا نہیں ۔ویسے انہوں نے ججوں کی ترقیاں کارکردگی سے مشروط کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ سول ججوں کی تقرری کے بعد ابتدائی ٹریننگ کورس کا دورانیہ بھی ایک سے چھ ماہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

میری رائے میں کارکردگی نہ دیکھنے والے ججوں کو فارغ کیا جانا بھی ضروری ہے لیکن جلد بازی میں اگر کسی سائل کے ساتھ ناانصافی ہوئی توپھر کیا ہوگا؟موجودہ حالات میں ایسانظام متعارف کرواناچاہئے جس کے تحت پرانے اور نئے مقدمات کی نوعیت دیکھ کروقت مقرر کیاجائے یعنی دو یا تین سال تک مقدمہ کا فیصلہ کیا جائے دراصل دیوانی مقدمات میںہی زیادہ وقت ضائع کیا جاتاہے کیونکہ جب انصاف کے تقاضے پورے ہونگے تو عدلیہ کا وقاربھی بلند ہوگا اوراگر چیف صاحب موجودہ نظام کو بد لنے میں کامیاب ہوگئے تو اِن کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں ہی یاد کیا جائے گااور اربابِ اختیاز کوبھی چاہیے کہ وہ چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ کو اِس عہدے پر زیادہ سے زیادہ کام کرنے کا موقع فراہم کرے یعنی اُن کو سپریم کورٹ کا جج بنانے میں جلدبازی نہ کی جائے تاکہ وہ اپنا مشن پورا کرسکیں۔یقینا نظام میں تبدیلی سے ہی ہر طرف انصاف کا بول بالا ہوگاجس سے ہمارے ملک پاکستان کا نام روشن ہوگا۔

Shahzad Imran Rana Advocate

Shahzad Imran Rana Advocate

تحریر: شہزاد، عمران رانا ایڈووکیٹ