کرکٹ کا جنون اور بھارت

1992 World Cup

1992 World Cup

تحریر:ابنِ نیاز
پاکستانی قوم ١٩٩٢ ء میں کرکٹ کے ورلڈ کپ جیتنے کے بعد سے کرکٹ کی ایسی دیوانی ہوئی ہے کہ ہزار بار پاکستانی ٹیم نے (تھوڑی سی مبالغہ آرائی جائز ہے) کمزور ترین ٹیم کے ہاتھوں بھی مار کھائی ہے۔ مار بولے تو مات کھائی ہے۔ چاہے وہ بنگلہ دیش کی ٹیم ہو یا آئرلینڈ کی یا وہ زمبابوے ہو ۔ لیکن پاکستانی قوم ایسی ہے کہ جب بھی کرکٹ کا موسم آتا ہے ، یہ اپنے سارے کاموں میں کرکٹ کا تڑکا ضرور لگاتی ہے۔ اگر شام کو میچ ہے تو سارا دن آپس میں یہی گفتگو ہو رہی ہو گی کہ آج پاکستان فلاں کھلاڑی کو کھلائے، فلاں کو نکال دے، فلاں کو چانس دے دے۔

اگر مخالف ٹیم کے فلاں کھلاڑی کو جلد آئوٹ کر دیا تو مزا آجائے گا۔ اور پھر اگلے دن سارا وقت یہی گفتگو۔ عرفان خان نے سارا مزا کرکرا کر دیا۔ اگرفلاں کھلاڑی کو یارکر پھینکتا تو وہ کبھی نہ کھیل سکتا۔ اگر حفیظ باہر جاتی ہوئی گیند کو نہ کھیلتا تو اسکا کیا جاتا۔ اس طرح کی ہزار ہا باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ کھانا کھاتے ہیں تو کھانا کم اور کرکٹ زیادہ نگلتے ہیں۔یہاں تک کہ رات کو سوتے میں بھی انہیں کرکٹ ہی نظر آتی ہے۔ اگر کوئی شادی شدہ ہے، بیوی نے کسی چیز کا پوچھ لیا تو جواب ملتا ہے سلی مڈ آف پر پڑا ہے۔ یا لیگ بریک چیک کرلو۔اسکے بعد بندے کی آنکھ ہسپتال میں کھلتی ہے اور لیگ بریک ہو چکی ہوتی ہے۔

Cricket Series

Cricket Series

گزشتہ دو ماہ سے ہمارے کانوں میں مسلسل دھماکے ہو رہے ہیں کہ پاکستان کو بھارت نے کرکٹ کھیلنے کی دعوت دے دی، لیکن یہ دعوت کسی تیسرے ملک میں ہو گی۔ پھر چند ہی گھنٹوں بر آر۔ایس۔ایس کا بیان آتا ہے کہ اگر پاکستان کی ٹیم بھارت کے ساتھ کھیلی تو گرائونڈ سے اپنے پائوں پر چل کر واپس نہیں جائے گی۔ ہمارے کرکٹ کے چیئرمین انڈیا جاتے ہیں اور وہاں پر ان کی جو عزت ہوئی وہ تمام دنیا نے دیکھی۔ کیا ہماری عوام اتنی ہی گئی گزری ہے کہ پھر بھارت سے کرکٹ کی پینگیں بڑھنے پر خوش ہو گی۔ ہاں یقینا ہو گی، وہ عوام جو چاہتی ہے کہ انڈیا کی فلمیں غور سے دیکھے۔ ان کا بس چلے تو وہ انڈیا میں اپنا کاروبار کریں۔

وہ انڈیا میں دوستیاں بڑھائیں۔ بھلے وہ پاکستان کے ایک ایک فرد کو بندوق کی سنگینوں پر چڑھا دیں۔ بھلے وہ خورشید قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی میں پبلشر کا منہ کالا کر دیں، جس سے ہمارے دیس کی توہین ہو۔لیکن ہم نے انڈیا کے ساتھ کرکٹ ضرور کھیلنی ہے۔

انڈیا کا رویہ پاکستان سے کیا ہے، یہ ساری دنیا جانتی ہے۔کہیں کوئی حادثہ ہوا نہیں اورالزام پاکستان پر ڈالا نہیں۔ نہ صرف الزام بلکہ دو تین گھنٹوں میں سارے ثبوت بھی پیش ہو جاتے ہیں کہ یہ دہشت گردی کرنے والا فرد پاکستان کے فلاں علاقے سے ہے۔ اس کا تعلق پاکستان کی فلاں جماعت سے ہے۔ فلاں کا بچہ ہے، فلاں کا باپ، فلاں کا شوہر ہے وغیرہ وغیرہ۔ سب نے پڑھا کہ انڈیا کی دشمنی پاکستان سے اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ ایک کبوتر کیا سرحد پار گیا، اس کو بھی پاکستان کا جاسوس قرار دے دیا گیا۔

Pakistan

Pakistan

اس کی سکیننگ ہوئی۔ اسکی تفتیش ہوئی۔ یہاں تک اس کبوتر کو جیل یاترا بھی کرائی گئی۔ خود ہی اپنے سمندر میں اپنے ہی ماہی گیروں کی کشتی کو اڑا دیتے ہیں اور الزام پاکستان پر لگاتے ہیں کہ اس کشتی کے ذریعے پاکستان دہشت گرد بھیج رہا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ انڈیا کے اندر کا ہی ایک آفیسر یہ راز فاش کردیتا ہے کہ اپنی ہی دیس کے معصوم ماہی گیروں کو مارنا ضروری تھا۔ کوئی اور منصوبہ بنا لیتے۔

اب بھی انڈیا نے ایک اور سازش پاکستان کے خلاف کی ہے۔ وہ ایسی سازش ہے جس میں سانپ بھی مر رہا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹ رہی۔ وہ یہ ہے کہ انڈیا پاکستان کی سرحدوں کے قریب زیرزمین پانی کا بے دریغ استعمال کررہا ہے اور چوںکہ یہ پانی سرحدوں (تھرپارکر اور چولستان) کے قریب سے نکالا جارہا ہے۔ اس لیے بہت زیادہ امکان ہے کہ سرحد کی دوسری جانب یعنی پاکستانی علاقے میں موجود زیرزمین پانی بھی کھینچ لیا جائے۔

بھارت نے وسیع پیمانے پر زیرزمین کا سروے مکمل کرلیا ہے اور اس کے لیے وہ جرمن جیو ہیلی بورن (ہیلی کاپٹر) ٹیکنالوجی استعمال کررہا ہے، جو بہت زیادہ گہرائی تقریباً 1000 نیچے زیرزمین موجود پانی کا بھی سراغ لگا دیتی ہے۔پہلے تو انڈیا سے پاکستان کی طرف آنے والے مختلف دریائوں پر انڈیا نے ڈیموں کی لائن لگا دی ہے اور یوں پاکستان کا پانی بند کر دیا ہے۔ اور اب یہ ایک اور نئی سازش پاکستان کو خشک کرنے والی۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان نے جلد اس کا ازالہ نہ کیا تو اللہ نہ کرے، میرے منہ میں خاک، پاکستان کی بہت سی زمین بنجر ہو جائے گی۔

Bangladesh

Bangladesh

لیکن ہمیں شوق ہے کہ ہم انڈیا سے لازمی کرکٹ میچ کھیلیں۔ ان کی ایک ہی رٹ ہے کہ میں نہ مانوں، میں نہ مانوں۔ اور ہم انہیں مختلف مقامات کے بارے میںتجاویز دے رہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات میں کھیل لیں، سری لنکا میں کھیل لیں، بنگلہ دیش میں کھیل لیں۔ لیکن کھیلیں ضرور۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اگر پاکستان انڈیا کے ساتھ کرکٹ میچ نہ کھیلا تو شاید اربوں روپے کا پاکستان کو نقصان ہو جائے۔ شاید امریکہ پاکستان سے ناراض ہو جائے۔ شاید چین پاکستان کے اندر گوادر کی بندر گاہ کا انتظام لینے سے انکار کر دے۔مجھے تو یہی لگتا ہے۔

اب جو خبر آئی ہے کہ بہاولپور میں قائدِ اعظم سولر پارک کا منصوبہ بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ اور عنقریب پنجاب حکومت اسکو فروخت کرنے والی ہے۔ کیونکہ انکا دعوٰی تھا کہ وہاں سے ایک سو میگا واٹ بجلی روزانہ کی بنیاد پر پیدا کی جاسکے گی۔ نیپرا نے بھی مختلف چیزیں مدِ نظر رکھتے ہوئے فی یونٹ ریٹ پندرہ سے اٹھارہ روپے مقرر کیا تھا۔ لیکن نہ تو بجلی سو میگا واٹ پیدا ہوئی بلکہ اٹھارہ سے بیس میگا واٹ کی پیداوار تھی۔ اور ریٹ بھی فی یونٹ چوبیس سے چھبیس روپے ہو گیا۔ مجھے شک پڑ رہا ہے کہ یہ حادثہ بھی انڈیا کے ساتھ میچ نہ کھیلنے کا شاخسانہ تھا۔جس کی وجہ سے پاکستان کو اتنا نقصان اٹھانا پرا۔ پتہ نہیں پاکستان نے اٹھایا یا کسی انفرادی شخصیت نے۔

انڈیا کرکٹ کے میدانوں میں ویسے بھی اتنا بدنام ہو چکا ہے کہ اب شاید اگر بڑے ملکوں میں غیرت ہو تو وہاں کبھی میچ نہ کھیلیں۔اکتوبر کی ہی تو بات ہے جب انڈیا کے تماشائیوں نے کٹک میں افریقہ کی ٹیم کے خلاف ہلڑ بازی کی ۔ ان پر بوتلیں پھینکیں اور ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ وجہ کیا تھی، صرف یہی کہ ان کے گھر کے کاغذی شیر اجنوبی افریقہ کی ٹیم کے ہاتھوں بری طرح پٹ رہے تھے۔جب کہ انڈیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان اس سیریز کا نام بھی امن سے متعلق ہی تھا یعنی “گاندھی مینڈیلا سیریز”۔

اسکے باوجود جو دنیا نے دیکھا کہ کتنا امن تھا اس میچ میں۔ بے شک وہاں کے چیدہ چیدہ کرکٹرز بشمول سنیل گواسکر نے کہا کہ کٹک شہر کی کم سے کم سزا یہی ہو سکتی ہے کہ یہاں کچھ عرصہ بین الاقوامی میچز نہ کروائے جائیں، یہاں تک کہ ٢٠٢٠ میں ہونے والے ورلڈ کپ کا بھی کوئی میچ یہاں نہ منعقد کروایا جائے۔ تب ہی شاید یہاں کے لوگوں کو حیا آئے۔ لیکن قارئین۔ یہ بات صرف کٹک شہر کی ہی نہیں ہے۔ نہ بات کرکٹ کی ہی ہے۔ انڈیا اپنے ہی وطن کے دیش واسیوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے۔ عامر خان جو کہ کل تک ان کا ہیرو تھا، اس نے صرف ایک بات ہی تو کی تھی کہ بھارت انتہا پسندی اور عدم برداشت سے گریز کرے۔ اس نے غلط تو نہیں کہا تھا۔ لیکن اس کے خلاف غداری کے مقدمات دائر ہو گئے۔ اس کو اپناہی وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

Shahrukh Khan

Shahrukh Khan

البتہ شاہ رخ خان ڈر گیا۔ اس نے بھی یہی بیان دیا تھا، لیکن اب واپس لے لیا۔جبکہ ہمارا یہ حال ہے کہ اب تو انڈیا کے ساتھ میچوں کا شیڈول بھی فائنل کر دیا ہے۔
جب انڈیا کا اپنے دیس والوں کے ساتھ یہ “حسنِ سلوک ” ہے تو پاکستان کی عوام کو تو اس نے کبھی بھی درِ خود اعتنا نہیں سمجھا۔وہ تو ہمیشہ سے اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگاتا ہے، اور ہمارے وطن کے غدار لوگ اس کے اس اکھنڈ بھارت کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ کیونکہ انھوں نے پاکستان میں تو کچھ رکھنا نہیں، نہ جائیداد نہ پیسے۔ نہ شہرت نہ دولت۔ لیکن یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستان میں انڈیا کی فلمیں چلنے پر زور دیتے ہیں، انڈیا کے چینل چلنے پر میڈیا کا ساتھ دیتے ہیں۔ چاہے ان میں کسی قسم کی تعلیم بھی دی جا رہی ہو، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

خدارا ! اے پاکستان کے لوگو، ہوش میں آئو۔ انڈیا نہ پہلے کبھی پاکستان کا دوست رہا ہے اور نہ کبھی آئندہ ہو گا۔ کیونکہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ کافر کبھی بھی کسی صورت میں بھی ایک مسلمان کا دوست نہیں ہو سکتا۔ اسلیے آپ مسلمان ممالک کا ساتھ دیں، آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہیں۔ اسی میں ہماری بقا ہے۔ باقی سب کچھ فنا ہے۔

Ibn e Niaz Logo

Ibn e Niaz Logo

تحریر:ابنِ نیاز