ظلم و بربریت کی تصاویر میں ایک تصویر

Social Media

Social Media

تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے ان بہت سے افراد کو زبان دی ہے جن کو نہ کوئی جانتا تھا اور نہ ہی ان کے پاس اپنی بات رکھنے کا مواقع موجود تھے۔ یعنی سوشل میڈیا کے ذریعہ آج ہر شخص کو آزادانہ لیکن قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی بات کہنے کا پورا حق ہے۔ساتھ ہی اِس میڈیا نے نہ صرف اپنی بات کو تحریری شکل میں رکھنے کا موقع فراہم کیا بلکہ تصاویر، آڈیو اور ویڈیوز بھی مہیا کرائے۔

گزشتہ چند ماہ یا ہفتوں سے سوشل میڈیا کی فراہم کردہ اِنہیں تصویر وںمیں کچھ ایسی تصاویر بھی دیکھنے کو ملی ہیں جنہوں نے بے شمار افراد کے قلب کو حد درجہ متاثر کیا ہے۔ہم خصوصاً اُن تصاویر کا تذکرہ کر رہے ہیں جو روہنگیا مسلمانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔جنہیں دیکھ کر نہ صرف کلیجہ منہ کو آتا ہے بلکہ آنکھوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔حد درجہ اذیت ناک تصاویر میں سے ایک تصویر نے خود ہمارے ذہن کو گزشتہ ایک ہفتہ سے کسی بھی لمحہ سکون و اطمینان فراہم نہ ہونے دیا ہے۔تصویر کو ذہن سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کسی صورت کامیابی نہ حاصل ہوئی۔اور ہوتی بھی کیسے جبکہ تصویر میں ظلم و زیادتی کی تمام حدیںپار کی جا چکی ہوں۔تصویر ایک ننے بچے کی ہے۔جوغالباً ایک سال یا کچھ زائد کا رہاہوگا۔بچہ زمین پر مردہ حالت میں پڑا ہواہے اور ایک جنونی شخص اس پر کھڑا ہے۔

اس کا ایک پیر بچہ کے دونوں پیروں کو دبائے ہوئے ہے تو وہیں دوسرا پیر بچہ کی گردن پر موجود ہے۔بچہ کی زبان سے منہ سے باہر ہے اورچہرہ کالا پڑ چکا ہے۔اس کے باوجود جنونی شخص یا تو اپنی فوٹو بنوانے میں مصروف ہے یا ظلم و بربریت کے اِس عمل کے دوران کسی نے اُس کی تصویر لے لی ہے۔گزشتہ ایک ہفتہ سے ہر وقت چلتے پھرتے،اٹھتے ،بیٹھتے ہر وقت تصویر ذہن پر سوار رہتی ہے۔یہاں تک کہ جب رات کو سونے کے لیے آنکھ بند کریں تو پھر اسی معصوم بچہ کی تصویر آنکھوں میں گھومنے لگے،اور انسان ہڑبڑا کر اٹھ جائے۔معاملہ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہی ایک تصویر روہنگیا مسلمانوں پر جاریظلم و زیادتی کی موجود ہو۔بے شمار تصاویر ہیں جنہیں دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ظلم و جبر کا دور دورہ ہے اور ایک ایسا المناک تشدد جس کا بظاہر اختتام ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔اس کے باوجودوہ بچہ کسی قیمت آنکھوں سے دور نہیں ہوتا!
آئیے ان روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں مزید کچھ جاننے کی کوشش کریں جن کے تذکرے آج کل چہارجانب جاری ہیں۔برما میں مسلمان نویں صدی عیسوی میں اس وقت آئے تھے۔

Rohingya Massacre

Rohingya Massacre

جب اسلام پوری آب و تاب کے ساتھ عرب،فارس،یورپ اور چین میں اپنی لازول کرنیں بکھیر رہا تھا۔اس وقت برما میں حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے محمد حنفیہ کے ذریعہ آفاقی مذہب کی آمد ہوئی اور یہاں کے عوام اخوت ومحبت اور انسانیت سے مزین دین اسلام سے متعارف ہوئے ۔فی الوقت ‘راکھن’ جو”برما” کے زیر قبضہ ریاست” اراکان” ہے،یہ خطہ بیس ہزار مربع میل پر محیط ایک مسلم مملکت تھا، جس پر 1784ء میں برما نے قبضہ کیا ۔ 1824ء میں اراکان پر برطانیہ کا تسلط ہوا۔ اور جب 1947-48ء میں انگریزوں نے انخلا کیا تو اہلِ اراکان کی شدید خواہش اور کوشش کے باوجود حیدرآباد اور جونا گڑھ وغیرہ ریاستوں کی طرح اراکان کو بھی خودمختاری نہیں دی گئی۔ محتاط اندازہ کے مطابق اراکان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 60 فی صد سے کم نہیںہے۔ اس تعداد میں وہ مسلمان شامل نہیں ہیں جو گزشتہ صدی عیسوی کی دوسری جنگ عظیم میں، جس کا ایک بڑا محاذ اراکان بھی تھا، بچ تو گئے تھے مگر جبری انخلا اور ترک ِ وطن یا ہجرت سے محفوظ نہ رہ سکے۔ یہ مسلمان جو اراکان کے قدیم نام”روہنگ”کی نسبت سے خود کو”روہنگیا” کہلواتے ہیں، ترکِ وطن اور ہجرت کی خاص متنوع اور پرانی تاریخ رکھتے ہیں۔ یہ بڑے مذہبی، جفاکش، پرامن اور صابر و شاکر لوگ ہیں۔ انہیں بزدل نہ بھی کہا جائے، پھر بھی ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ لڑنا بھڑنا اور اپنے جینے کے حق کے لیے مرنا مارنا انہیں پسند نہیں ہے۔

یہاں یہ بات بھی یہاں واضح ہوتی چلے کہ برمی مسلمانوں کا مطلب، وہ تمام مسلمان ہیں جو برما میں وہاں کے قانون،دفعہ ،ذات اور مذہب کے اعتبار سے اصل الاصول باشندے ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کی تعداد تقریباً12 لاکھ ہے جو آج حق شہریت سے پوری طرحمحروم ہیں ۔انہیں گندی پسماندہ بستیوں تک محدود کیا گیا ہے جن میں وہ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ مسلمان صرف نسلی ”اِعدام” ہی کے شکار نہیں ہیں، منظم اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے تحت گزشتہ چھ سات دہائیوں سے ہر مقتدر فوجی یا غیر فوجی ٹولہ ان کے دینی، علمی، ثقافتی اور تاریخی ارتداد کے لیے بھی کوشاں ہے۔ حکومت و ملازمت اور تعلیم کے دروازے ان پر بند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود پر گزرنے والی قیامت کے بارے میں یہ لوگ دنیا کو تحریراً یا تقریراً کچھ نہیں بتاسکتے۔ روہنگیا کا شمار ایسے باشندوں میں ہوتا ہے جن کا کوئی گھر نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا کی سب سے زیادہ استحصال شدہ اقلیت قرار دیا گیا ہے۔پسماندہ اور کمزور ترین اقلیت ہونے کے باوجود بدھ بھکشو اور مگھوں کے ذریعہ مسلمانوں کے سروں سے کھیلنے کی داستان اور سانحات پچھلے 60ساٹھ سالوں پر محیط ہیں۔

Rohingya Dead Bodies in Arakan

Rohingya Dead Bodies in Arakan

1941ء میں ارکان (ریکھائن) کے ضلع (اکیاب) میں بدھسٹوں نے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی اورتنظیم کے تحت مگھوں نے 26مارچ 1942ء کو ریکھائن میں بسنے والے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا۔ یہ قتل عام تقریباً تین مہینوں تک جاری رہا۔ مارچ سے لے کہ جون 1942ء تک ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ جبکہ پانچ لاکھ مسلمانوں کو بے گھر اور بے آسرا کیا گیا۔دوسری بار 1950ء کی دہائی میں قیامت ڈھائی گئی اور بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ تیسری دفعہ 1978ء میں برما کی فوجی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف زبردست خونی آپریشن شروع کیا اور تقریباً ایک لاکھ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔نیز پانچ لاکھ سے زائد باشندوں کو اپنی ہی سر زمین سے بے دخل کردیا۔ 1991ء میں چوتھی دفعہ مسلمانوں کے خلاف خونی آپریشن شروع کیا نیز ریکھائن میں فسادات برپا کیے گئے۔ ان فسادات کے نتیجے میںظالم مگھوں نے ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔اور گزشتہ 2012ء سے جو خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اس کو نہ صرف ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعہ زمانہ بھی شاہد ہے۔

یہاںیہ بات بھی جانتے چلئے کہ یہ گوتم بدھ کون ہیں ؟جن کی تعلیمات کے نام لیوا قتل و غارت گری اور ظلم و بربریت کے گھنائونے کھیل میں آج کسی بھی “فرعون و نمرود “سے پیچھے نہیں ہیں؟ہم سب جانتے ہیں کہ بدھسٹ حضرات گوتم بدھ کو اپنا مذہبی رہنما مانتے ہیں۔گوتم بدھ 563 قبل مسیح میں پیدا ہوئے اور ان کا اصلی نام”گوتم سدھارتھ”رکھاگیا۔بقول گوتم بدھ:”انسان برائی کاارتکاب خودکرتاہے اور اس کے خراب نتائج کو بھگتنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔وہ خود ہی برائی سے کنارہ کش ہوسکتاہے اور پاکیزگی اورنجاست دونوں ذاتی صفات ہیں۔ کوئی بھی دوسرے کوپاکیزہ نہیں بناسکتا”۔یہ علم انہیں دنیا کے فانی ہونے کے ادراک کے بعد ہوا۔انہوں نے چند مناظر دیکھے :سب سے پہلے منظرمیں ایک ضعیف وکمزور آدمی کودیکھاجسے دیکھ کرانہیں بوڑھے کاماضی یاد آیا اور اپنے آپ پرنظرڈالتے ہوئے خیال آیا کہ ایک دن وہ بھی اس ضعیفی کی عمرمیں پہنچیں گے۔ دوسرے منظرمیں ایک بیمارآدمی سامنے آیاجس کے جسم پہ کمزوری کے آثار واضح تھے ،ان کے ذہن میں یہ بات سرایت کرگئی کہ وہ بھی اسی طرح بیمار ہوسکتے ہیں۔تیسرے منظرمیں ایک جنازہ گزرا توان کے ذہن میں دنیاکی بے ثباتی سامنے آئی اور احساس ہوا کہ ایک دن میراجنازہ بھی لوگوں کے کندھوں پہ ہوگا۔ چوتھے منظر میں ایک فقیر اور درویش آدمی آیا،اس کے چہرے پہ طمانیت تھی،وہ بھیک مانگ رہاتھا اوردنیاکے جھمیلوںسے بے خبر ،ایک آزادزندگی بسر کر رہا تھا۔

یہی وہ آخری منظرتھا جس نے بدھ کو سوچنے پہ مجبور کردیاکہ کیا وہ ایسی آزادانہ اوردرویشانہ زندگی بسر کرناچاہتے ہیں؟مناظر کودیکھ کرشاہانہ ٹھاٹ باٹ چھوڑ ،حق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور فیصلہ کیاکہ جب تک وہ صحیح راہ تلاش نہ کرلیں گے گھر واپس نہیں آئیں گے۔آخر وہ دن آیا کہ گوتم بدھ نے راحت و تسکین حاصل کی۔ اُن کے دل میں ایک قسم کی روشنی محسوس ہوئی اور دل کو اطمینان ہوا۔ معلوم ہو اکہ فاقے اور جسم کو ایذا دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ دنیا اور عقبیٰ میں خوشی اور راحت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نیک اور پاک زندگی بسر کی جائے۔ سب پر رحم کیا جائے اورکسی کو نہ ستایا جائے۔ گوتم بدھ کو یقین ہوگیا کہ نجات کا سچا راستہ یہی ہے۔لہذا گوتم نے “بدھ “یعنی عارف کا لقب اختیار کیا۔اُنہیں گوتم بدھ کی تعلیمات پر عمل پیرابدھسٹوں کوکاش کوئی ہوتاجو ان کے عمل سے باخبر کرتا ۔شاید کہ انہیں اپنے عمل پرپشیمانی ہوتی۔ !

Asif Iqbal

Asif Iqbal

تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com