کبھی اسے کبھی خود کو رلایا کرتے تھے

Cry

Cry

کبھی اسے کبھی خود کو رلایا کرتے تھے
ہم اپنے غم کی کتھا جب سنایا کرتے تھے
تیرا کرم کہ ہوئے آشنائے دربدری
کبھی نہ گھر سے قدم بھی اٹھایا کرتے تھے
کسی کے لوٹ کے آنے کی جو خبر ہوتی
بڑے ہی چائو سے گھر کو سجایا کرتے تھے
جدائیوں میں عجب اضطراب رہتا تھا
قدم قدم پہ یونہی چونک جایا کرتے تھے
یہ رنج و غم کے مسافر یہ بے زباں پیکر
کسے خبر کہ کبھی مسکرایا کرتے تھے
ہم ایسے دردِ محبت کے بانٹنے والے
کبھی کبھی تیرا دل بھی دکھایا کرتے تھے

ساحل منیر