سائبر گرومنگ

Cyber Grooming

Cyber Grooming

تحریر : شاہد شکیل
یہ محض اتفاق ہے کہ کالم تحریر کرتے ہوئے مجھے فیس بک پر مغربی ممالک کی کئی خواتین نے فرینڈریکویسٹ سینڈ کی بظاہر کوئی توجہ طلب بات نہیں تھی لیکن سوچا ایک نظر دیکھ ہی لوں اور جب ایک کے نام پر کلک کیا تو نتیجہ دیکھتے ہی فوراً ڈیلیٹ کر دیا کیونکہ یہ کسی فرد واحد کا کام نہیں بلکہ منظم نیٹ ورک ہے جو ایک بار کسی تجسس پسند کو اپنے جال میں پھانس لیتا ہے تو بچ نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

کئی سمجھ دار انسان تو کسی قسم کے جھانسے میں آئے بغیر نکل جاتے ہیں لیکن لاعلم اور تجسس پسند یا ایسے مواد کو پسند کرنے والے اپنا سب کچھ تباہ وبرباد کر دیتے ہیں۔سائبر گرومنگ کوئی نیا موضوع نہیں ہے لیکن عام بھی نہیں کیونکہ موجودہ دور میں انٹر نیٹ کی سہولت نے جرائم پیشہ افراد یا منظم گروہوں کے لئے اتنی آسانیاں پیدا کر دی ہیں کہ کسی کو شکار کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے اور جو ان کا شکار ہوا وہ سب کچھ گنوا بیٹھاباالفاظ دیگر انٹر نیٹ کئی لوگوں کے لئے وبال جان بن گیا ہے۔جرائم پیشہ افراد بذریعہ انٹر نیٹ ہر خاص و عام کی انفارمیشن اور تمام ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد غیر قانونی ہتھکنڈوں سے بڑی بڑی اور میگا کمپنیز تک کو شدید نقصان پہنچا چکے ہیں کیونکہ ایسے لوگ پروفیشنل اور ہر شے کی جانکاری رکھتے ہیں اس لئے چند منٹوں میں کی بورڈ پر کلک کلاک کرنے کے بعد اپنا مقصد حاصل کر لیتے ہیں۔

سائبر کرائمز، ہیکنگ اور دیگر انٹر نیٹ ورکنگ سسٹم سے کئی انسانوں اور خاص طور پر بچوں یا کم عمر نوجوانوں کو شدید ذہنی و جسمانی نقصان بھی پہنچا ہے۔ سائبر گرومنگ کے مجرم کیلئے اتنا کافی نہیں کہ وہ جنسی گفتگو کریں یا جنسی فنٹازی کا تبادلہ خیال کریں بلکہ جنسی تصاویر، ویڈیوفلمز یا تشدد سے بھر پور مواد سے بھی ذہنی شاک پہنچاتے ہیں، کئی جرائم پیشہ افراد جنسی خواہشات کے پیش نظر بچوں اور نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والوں کو جنسی تصاویر یا ویب کیم کے ذریعے پریس کرنے کی کوشش میں نہایت مہذب طریقے سے ورغلانے اور بعد ازاں بلیک میل کرتے ہیں،ان تمام مواد میں جنسی خواہشات کو ابھارنے کا طریقہ ہوتا ہے۔چائلڈ پورنو گرافی اور ریکارڈنگ کی تشکیل ایسے مجرموں کیلئے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے کیونکہ دوران ویڈیو گفتگو سے ہی خاص میٹر یل حاصل کرنے کے بعد فحش فلم تیار کر لی جاتی ہے۔

Cyber Grooming Victim

Cyber Grooming Victim

سائبر گرومنگ کے مجرم ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے بچوں اور نوجوانوں کا ڈیٹا ، فوٹوز ،ایم ایس این یا ای میل ایڈریس حاصل کر سکیں اور بعد ازاں اس حاصل کردہ انفارمیشن سے پرسنلی طور پر کونٹیکٹ کے لئے راہیں ہموار کی جاتی ہیں تاکہ جنسی حملہ کیا جائے یا دباؤ میں لانے کے بعد جسم فروشی پر مجبور کیا جائے انکار کی صورت میں انہیں تصویریں یا ویڈیوز دکھا کر دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر پبلش کر دی جائیں گی۔ایسے مجرم پروفیشنل ہوتے ہیں اور مکمل حکمت عملی تیار کرنے کے بعد تعاقب میں رہنے کے بعد شکار کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں شکار کو کس شے کی خواہش ہے ،ان سے دوست اور مخلص بن کر پہلے اعتماد حاصل کیا جاتا ہے اور بعد میں شکار،اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے وہ اکثر تحفے دینے اور وعدے بھی کرتے ہیں مثلاً مالی یا دیگر مسائل میں گھرے بچوں کو اپنی چالوں سے جال میں پھانسا جاتا ہے وہ جانتے ہیں کہ کم عمر بچے اکثر پیسوں کیلئے یا الیکٹرونک آلات کے حصول کے لئے سب کچھ کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔

آج کل سمارٹ فونز اور گیم کونزولز وغیرہ کی لالچ دے کر شکار کرنا بہت آسان ہو چکا ہے۔سائبر گرومنگ کے مجرموں کے عام اور سادہ سے سوال ہوتے ہیں کہ کیا تم اکیلے ہو ، کیا پہن رکھا ہے ، کبھی کسی سے جنسی روابط ہوئے ہیں ،اپنے فوٹوز کہاں سیو کئے ہیں ،کیا ویب کیم استعمال کرتے ہو،تمہارا اصل نام کیا ہے ،کون سے سکول جاتے ہو،کیا اپنا موبائل نمبر دے سکتے ہو وغیرہ،تمام ڈیٹا حاصل کرنے کے بعد منصوبہ بندی اور دھوکے سے اپنے شکار کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے انہیں طویل انتظار ،تحمل مزاجی اور صبر آزما گھڑیوں کے بعد خطرناک کھیل کا آغاز ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ کم عمرنوجوان بہت جلد ان کے نرغے میں آ جائیں گے۔

جرمن کہاوت ہے ہر شے کے باخبر رہنے سے آپ اپنا دفاع کر سکتے ہیں اور تحفظ یا دفاع ان حالات میں اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ فوری طور پر ایسے افراد کو بلاک کیا جائے یا پولیس سے رابطہ کیا جائے۔ایسے افراد سے محض وقتی طور پر جان چھڑانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ مجھے تنگ نہ کیا جائے، میں تمہیں نہیں جانتا، تم کون ہو وغیرہ کیونکہ ایسے جوابات یا باتوں سے پیشہ ور اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کہ شکنجے میں آنے کیلئے پنچھی پر تو ل رہا ہے اور بار بار تنگ کرنے یا باتوں میں الجھانے کے بعد ان کا راستہ صاف ہو جاتا ہے۔مغربی ممالک میں بچوں اور نوجوانوں کے علاوہ دیگر عمروں کے افراد کو بھی ذہنی طور پر پریشان کیا جاتا ہے انہیں خواتین کی عریاں تصاویر اور ویڈیوز سینڈ کرنے کے بعد تجسس ابھارا جاتا ہے اور ایسے گھناؤنے کام فرد واحد نہیں بلکہ منظم گروہ سر انجام دیتے ہیں ، فیس بک پر یہ رحجان عام ہو چکا ہے۔والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور انٹر نیٹ استعمال کرتے ہوئے بچوں سے کنارہ کشی نہ کی جائے۔

Shahid Shakil

Shahid Shakil

تحریر : شاہد شکیل