دامن کو ذرا دیکھ

PML N vs PTI

PML N vs PTI

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
صحنِ چمن میںاپنی سرفروشی کے” قصہ خواں” بہت اور لاف زنی میں یدِطولیٰ رکھنے والے بھی ڈھیروں ڈھیر مگر زیست کے بیابانوں میں بھٹکنے والوں کی دستگیری کرنے والے معدوم، مخدوم بہت خادم ایک بھی نہیں۔ لاہور میں ضمنی الیکشن نہیں ،اقتدار کا معرکہ بپا ہوا ،خواجہ سعد رفیق نے کہا ”قبضہ ہار گیا ،جذبہ جیت گیا لیکن ہم کہتے ہیں کہ ضابطۂ اخلاق ہارگیا، الیکشن کمیشن ہار گیا اور بد زبانی ،بَدکلامی ،بدتمیزی ،بدتہذیبی ،بداخلاقی ،بددیانتی ،بدخواہی اور بدطینتی جیت گئی۔ یہ اقتدارکی جنگ تھی جس میں تحریکِ انصاف کی جانب سے غیر پارلیمانی زبان ، طعنوںاور گالیوں کا کھلم کھلا استعمال ہوا جواباََ نواز لیگ نے بھی کوئی کسراٹھا نہیںرکھی البتہ میاں برادران نے احتیاط کا دامن چھوڑا نہ ایازصادق نے۔ جیت جس ک امقدر تھی وہ لے اُڑا اور نرگسیت کے گنبد میں بند شخص کو اُس کی” زبان کارَس” مِل گیا۔

یہ ہارنے والے کی قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں مسلسل آٹھویں شکست تھی لیکن اُس کی لن ترانیاںاب بھی جاری اورمیں نہ مانوں کی رَٹ بھی برقرار۔ حقیقت یہی کہ جب حرص کی یورش ”سونامی”بن جائے توتہی دامانی مقدرٹھہرتی ہے اور چشمِ ناشناس رہینِ یاس۔ اپنے آپ کوعصرِ رواںکا کوہ کُن سمجھنے والادودھ کی نہریںبہانے نکلالیکن حریص کرگسوںکی بھیڑمیں ایساگُم ہواکہ اپنے وجودکی اچھائیوںکا ادراک بھی کھوبیٹھا ۔ اُس نے ”شوکت خانم”جیسا عظیم ہسپتال بنایااور نمل یونیورسٹی بھی لیکن تب اُس نے حرص کے زاغ کو قریب بھی پھٹکنے نہ دیا، یہی سبب کہ پوراپاکستان اس کاگرویدہ اوراُس کی ایک آوازپہ ”لبیک”کہنے والا۔ تب آج کے رقیبوں (میاںبرادران) نے ہی اسے شوکت خانم ہسپتال کی تعمیرکے لیے زمین الاٹ کی اورڈھیروںڈھیرامدادبھی۔ لیکن جب ہوسِ اقتدارکا زہراُس کی نَس نَس میںسمایا تواُس نے وہ ”افتتاحی لوح” بھی اکھاڑپھینکی جسے اُس نے کبھی بڑے شوق سے میاںنواز شریف کے ہاتھوں نصب کروایاتھا۔

Imran Khan

Imran Khan

انانیت اور نرگسیت کے بتوں کی پوجا کرنے والا میدانِ سیاست میں اپنی مسلسل ناکامیوںسے یوںبوکھلایا کہ دشنام کوبھی گوہرفشانی سمجھنے لگا۔ ہم جیسے لوگ جو تمام تراختلافات کے باوجود برملاکہتے تھے ”کپتان جھوٹ نہیںبولتا” یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ”کپتان سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں بولتا”۔وہ ”نیا پاکستان” بنانے کا دِل خوش کُن نعرہ لے کرنکلالیکن وہ دھن نہ جذبہ اورنہ ہی مقصدسے عشق، محض اقتدارکی ہوس۔ تحقیق کہ اعمال کادارومدار نیتوںپر ہوتاہے ،کپتان صاحب کی نیت میںجب تک اقتدارکا فتورشامل نہیں ہواوہ محیرالعقول کارنامے سرانجام دیتے رہے لیکن جونہی اقتدارکے ہماکی تلاش میںنکلے ،اُن کی شخصیت کاایک ایک پرت کھل کرسامنے آتاچلا گیا۔ سب نے جان لیا کہ فقط مسندِ اقتدارہی اُن کے دردکا درماںجو ہرگزرتے دن اُن سے دورہوتی جارہی ہے اوررخشِ عمرتیزی سے بڑھاپے کی طرف رواںدواں۔

ہم سمجھتے ہیںکہ اگراب بھی وہ اناکے آہنی حصاروںکو توڑ اورحقیقتوںسے گریز کی عادتِ بد کوچھوڑکر قومی دھارے میںشامل ہوجائیں توقومی سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیںلیکن اگراُنہوں نے ”میںنہ مانوں” کی رٹ لگائے رکھی تو پھر وہ وقت دور نہیں جب عودکر آنے والی تنہائیاں اُنہیںبھی اصغرخاں بناکر تاریخ کے اوراق میںگُم کردیں گی ،اصغرخاں کی تحریکِ استقلال بچی نہ کپتان کی تحریکِ انصاف بچ پائے گی۔ پیپلزپارٹی کا حشر بھی اُن کے سامنے کہ کبھی وہ بھی پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہواکرتی تھی لیکن اب تنہائیوںکا شکارکہ اُس کے دامن میںسوائے کرپشن کے داغوںکے اورکچھ نہیں۔ سچ یہی کہ ایساشجر جو تمازتوں میںکمی نہ کرسکے بھلا اُس کی چھاؤںمیں کون بیٹھے گا۔ اگرکپتان صاحب اناکی بوسیدہ زندگی سے باہرجھانک کردیکھیں تواُنہیں دنیابہت خوبصورت نظر آئے گی ، اگروہ اِس طرف مائل نہ ہوئے تو پھروہ وقت دورنہیں جب اُن کے نہاںخانۂ دِل سے یہ صدا اُبھرے گی کہ

رفتہ رفتہ زندگی کو ڈَس گئیں تنہائیاں
بڑھتے بڑھتے دِل کی ویرانی بیاباں بَن گئی

ہم اب بھی پُر یقین کہ پرویزرشید نے عالمِ غیض میںکپتان صاحب پرملک دشمنی کا غلط الزام دھردیا لیکن خاںصاحب کوبھی اتناتو ادراک ہوناچاہیے کہ ارضِ وطن کو قومی وملّی یکجہتی کی جتنی آج ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ ہمارے دیکھے ، اَن دیکھے دشمن قطاراندر قطاراور پوری قوم مصروفِ پیکار۔ نوشتۂ دیواریہی
آبادیوںکی خیر منانے کا وقت ہے
جنگل کی آگ پھیل رہی ہے ہوا کے ساتھ
ایسے میں قومی دھارے میں شامل ہونے کاوقت ہے نہ کہ احتجاجی سیاست کا۔ وہ احتجاج ضرورکریں کہ یہ اُن کاآئینی حق ہے لیکن پہلے دھرتی ماںپہ آیاہوا کڑاوقت توٹال لیں۔

Election

Election

ضمنی انتخابات نوازلیگ کے لیے بھی لمحۂ فکریہ کہ لاہور میں پنجاب اسمبلی کی نشست کھو بیٹھی اور اوکاڑہ میںاُس کی نگاہِ انتخاب جس شخص پرپڑی وہ چاروںشانے چِت۔ اُسے بھی ادراک کرلینا چاہیے کہ قوم اب شعورکی اُس منزل پرہے کہ اُس کی چشمِ بیدارمیںصرف وہی جچتاہے جس کادِل قومی دردسے لبریزہو ۔محسن لطیف نے اپنے حلقے میںاڑھائی سال تک جھانک کربھی نہ دیکھا،نتیجہ سب کے سامنے۔سیاسی جماعتوں کوجان لیناچاہیے کہ لاہورنواز لیگ کاہے نہ تحریکِ انصاف کااور نہ ہی پیپلزپارٹی کا۔اب یہاںصرف وہی کامران ہوگا جس کے اندرکچھ نہ کچھ کرگزرنے کی امنگ جواںہو گی ۔ یہ بجاکہ ایازصادق کی جیت نے دھاندلی کے تمام الزامات کومستردکرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ بالکل درست اورالیکشن ٹربیونل کے جج کافیصلہ بالکل غلط تھا،۔

یہ بھی درست کہ NA-122 کے ضمنی انتخابات میںووٹ حاصل کرنے کی شرح کم وبیش 2013ء کے عام انتخابات جتنی ہی تھی۔2013ء میں نوازلیگ نے ڈالے گئے ووٹوں کا 51.6 فیصد حاصل کیااور 2015ء میں50.6 جبکہ تحریکِ انصاف نے عام انتخابات میںڈالے گئے ووٹوںکا 46.8 اور ضمنی انتخاب میں48.7 فیصدحاصل کیاجس سے دھاندلی کے الزامات کی تویکسر نفی ہوگئی لیکن یہ بھی ثابت ہوگیا کہ تمام تر ترقیاتی کاموںکے باوجودنوازلیگ اپنی مقبولیت آہستہ آہستہ کھوتی چلی جارہی ہے۔ یہ شایدتاجربرادری کاغصہ ہویا پھرعائشہ ممتازکے جاوبے جاچھاپوں کا اثر، بہرحال جوکچھ بھی ہے نوازلیگ کواپنی مقبولیت کولگے اِس گھُن کابَروقت علاج کرناہو گاکہ اسی میںاُس کی سیاسی بہتری مضمرہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر