رقص کرتی ہوئی ظلمت کی رِدا ہو جائو

رقص کرتی ہوئی ظلمت کی رِدا ہو جائو
جائو اِس شہرِ صعوبت کے خدا ہو جائو
اپنے ناپاک ارادوں کا عَلم تھامے ہوئے
صبحِ ماتم کی لہو رنگ ضیاء ہو جائو
جِس نے لفظوں کو تجسم کا ہنر بخشا تھا
آج اس سوچ کے ساحل سے جدا ہو جائو
آسماں بن کے غریبوں کو ستانے والو
خاک پر رینگتے رہنے کی سزا ہو جائو
اے شبِ غم کے سِسکتے ہوئے پاگل لمحو!
چپ کی بستی میں کبھی حرف و صدا ہو جائو

Sahil Munir

Sahil Munir

ساحل منیر