اسے عزیز رکھا جو ہمارا تھا بھی نہیں

Sad Man

Sad Man

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
منظور جھلے نے کیا خوب کہا تھا منظور دلاں وچ غم ریئندہ کتے وچھڑیاں نہ مر جائیئے اور وہی ہوا ایک اور دوست گیا ۔رحمت خان،ارشد خان،قاری شکیل،مسعود جاوید،مہتاب احمد،احمد سعود قاسمی،سید ظفر مہدی اور اب انجینئر عزیز احمد۔ ١٥ اکتوبر کو ایک خبر جدہ سے آئی انتہائی مطہر و نفیس بھائی اطہر نفیس عباسی صدر عالمی اردو مرکز نے جانی پہچانی پوسٹ لگائی جس سے پتہ چلا کہ انجینئر عزیز اب اس دنیا میں نہیں رہے مسرت خلیل کے مطابق پمارا یہ دوست ٧٤ سال کی عمر میں اس دنا سے رخصت ہوا ہے ۔دل بہت اداس تھا ایسے میں بیگم نے ڈھارس بندھائی اللہ نے سنبھال لیا ہے بیگم تین سال پہلے چلی گئی ہیں اب اللہ کا کرم ہے کہ وہ بھی انہی کے پاس چلے گئے ہیں۔ویسے بھی زندگی موت کی امانت ہے۔مجھے عدنان کا علم ہے کہ وہ ایک بھولا بھالا سا بیٹا ہے جو معمولی ملازمت کرتا ہے۔جدہ ایک آکاش بیل ہے جو گیا سو گیا اس سے نکل کر بھی آپ اسی کے حصار میں رہتے ہیں۔انجینئر عزیز سے ہماری پہلی ملاقات انجینئرز فورم کے پلیٹ فارم سے ہوئی۔

اس پلیٹ فارم سے حفیظ اللہ نیازی کسی وجہ سے الگ ہوئے تو ان کے دوست ہم تک پہنچے۔کسی پانچ ستارے ہوٹل میں پاکستان انجینئرز کمیونٹی اور فورم کے لوگ ملے۔انجینئر عزیز اس فورم کے سیکریٹری تھے۔عزیز کا تعلق کراچی سے تھا وہ کہا کرتے تھے کہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے کراچی آفیئرز کا مشیر تھا۔میری ہنسی مذاق چلتی رہتی تھی میں اکثر کہا کرتا بھٹو کو تختہ دار پر چڑا کر لگتا ہے آپ ہمیں جدہ میں آگے کرو گے۔کیا بندہ تھا کمیونٹی کے دکھ درد میں شریک ۔عمران خان ورلڈ کپ جیت کر آئے تو میزبانوں میں سر فہرست۔ہماری جب ملاقات ہوئی تو اس وقت جدہ میں نوائے وقت کا دور دورہ تھا۔ایک فورم کسی کے گھر ہو رہا تھا امیر محمد خان میزبان تھے میرزا سکندر،فردوس ممتاز عباسی اعزازالرحمان اور بہت سے دوست شریک تھے یہ کسی کا گھر تحلیہ روڈ پر مطعم شہزاد کے پیچھے تھا عزیز ان دنوں مکہ مکرمہ میں نوکری کیا کرتے تھے۔

وہاں سے کمیونٹی مسائل کے حل کے لئے سر گرداں رہتے تھے۔یہ بھی اسی اجلاس میں شریک تھے بڑی تجاویز آئیں تا دیر گفتگو ہوتی رہی اذان بلند ہوئی تو ایک دم چونکے اور کہا اوہ! میری بیگم نیچے گاڑی میں ہے۔انجینئر عزیز کی رحلت پر آسماں بھی رویا ہو گا،جدہ نے بڑے نامور پاکستانی پیدا کئے ان مین ایک مرحوم انجینئر رفیع بھی تھے۔وہ شہر انجمن آرائی میں کراچی پنڈی اسلام آباد سے آگے ہے۔اس شہر میں کون ہے جو نہیں گیا احمد فراز ہوں انور مسعود افتخار عارف شبنم رومانی پروفیسر عنئت علی خان مجید نظامی ضیاء شاہد خوشنود علی خان ناصر زیدی غرض اس شہر بے مثال کے میزبانوں نے بھی کمال کی محفلیں سجائیں۔میں کس کا نام لوں یا نہ لوں ایک ایسی لمبی فہرست ہے لیکن حلقہ ء یاران وطن سر فہرست رہا۔انجینئر عزیز کی ہر شاعر ادیب سیاست دان سے دوستی تھی بنیادی طور پر وہ پیپلز پارٹی کے تھے تمام عمر وہ پی پی پی میں رہے اگر وہ پاکستان میں ہوتے تو یقینا انہیں پیپلہز پارٹی کے جھنڈے میں دگفن کیا جاتا۔

Hand Shaking

Hand Shaking

بڑی دھیمی ہنسی ہنستے زہرہ ہوٹل جسے آپ جدہ کا پاک ٹی ہائوس بھی کہہ سکتے ہیں میں اکثر ملاقات رہتی۔ ایک مدت سے بیمار تھے آخری بار ٢٠١٤ میں ملاقات ہوئی امریکہ سے آئے ہوئے شاعر نور جرال آئے ہوئے تھے عزیز نے ان کی میزبانی کی۔انجینئر عزیز کا دل چاہتا تھا کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہوں۔یہ واحد وہ شخص تھے جنہیں میں نے منع کیا کہ آپ جہاں جوانی اور بڑھاپا گزارا ہے وہیں رہیں ان کے پاس پاکستان بدلنے کی تجاویز ایک پلندے کی شکل میں موجود رہتی۔میں اور ملک محی الدین جن کے ذکر کے بغیر کوئی جداوی بات مکمل نہیں ہوتی کہا کرتے ۔انجینئر تو پیدا سیکریٹری ہوا ہے اور مرے گا بھی سیکریٹری۔سچ پوچھیں وہ بڑے بڑے صدور سے بڑا تھا۔میں نے آج تک نہیں سنا کہ عزیز کا کسی سے جھگڑا ہوا ہو۔

راضی برضا ہر ایک کا دوست تھا اس کی خبر بحرین میں مراد علی وزیر نے سنی افسردہ ہوئے رانا عبدالباقی نسیم سحر غرض کوئی ایسی آنکھ اشک بار نہ تھی جو اس کی موت پر روئی نہ ہو۔انجینئر عزیز بعد میں جدہ آ گئے ایئر پورٹ کے کیمپ میں انجینئرز کے بے شمار فنکشنز ہوئے۔شہر میں بہت سی تقریبات ہوئیں ان کا نہ ہونا ایسا لگتا تھا کہ کوئی ہے ہی نہیں ۔محفل آرائی اپنی جیب خاص سے کرنا جانتے تھے۔بڑے معصوم بھائی تھے حتی کے کشمیر کمیٹی میں جا بیٹھے۔ایک مشاعرہ ہوا جس میں احمد فراز بھی تھے مرحوم قاری شکیل صدر مسلم لیگ بھی تھے عزیز بھی مشاعرہ رات گئے تک جاری رہا۔

قاری شکیل سادہ لوح تھے مشاعرے کے بعد احمد فراز سے کہنے لگے واہ سرفراز صاحب تساں تئے محفل لٹ لئی۔سب حیران ہوئے میں نے کہا وہ آپ کہ کہہ رہے سر! فراز آپ نے مشاعرہ لوٹ لیا فراز کہنے لگے کہا انہوں نے بھی ٹھیک ہے اور آپ نے بھی۔انجینئر عزیز نے لقمہ دیا موصوف مسلم لیگ کے صدر ہیں معاف کر دیں۔فراز نے برجستہ کہا کوئی مسلم لیگیا ہی کہہ سکتا ہے۔ بڑے مزے کی بات ہے مرزا گلنار بیگ کمال کے دوست ہین ان سے فرمائش کرائی ڈاکٹر پیر زادہ قاسم سے کہا وہ غزل سنائیں۔تمام عمر عجب وضح داریوں میں کٹی اسے عزیز رکھا جو ہمارا تھا بھی نہیں
جب وہ عزیز کا نام لے رہے تھے میں نے انجینئر کی گردن پکڑ کر کہا اسے عزیز رکھا جو ہمارا تھا بھی نہیں۔

Pakistan

Pakistan

بات تو سچی نکلی جدہ کی مٹی میں جوان ہونے والے وہیں بوڑھے ہو کر مٹی میں مل گئے ہمارے تو نہ ہوئے۔ عالمی مجلس محسورین کی اگلی نشستوں کے عزیز ساری عمر جدوجہد میں گزار گئے۔پاکستان آ کر کچھ کرنا چاہتے تھے میں نے انہوں مشورہ دیا یہ جدہ آپ کا ہے یہاں کی کمیونٹی آپ کو جانتی ہے کہاں نئی بستیاں آباد کرو گے اللہ میرے اس دوست کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ایک وقت شہر کی فضا بڑی مکدر تھی الطاف حسین ہو کر گیا تھا لسانیت پرست سنپولئے بھی سر گرم تھے۔موجودہ وزیر اعلی کے والد عبداللہ شاہ وزیر اعلی سندھ کو کراچی کے صحافیوں نے گھیر لیا موارائے عدالت قتل مقاتلوں کی بات ہوئی میں نے عبداللہ شاہ کو کراچی میں سٹیٹ کی رٹ قائم کرنے پر مبارک باد دی تو لوگ اچھل پڑے لدھڑ کے چودھری شہباز اور انجینئر عزیز دو ایسے افراد تھے جنہوں نے میرا ساتھ دیا۔

سچا پاکستانی تھا۔ایک بار کہنے لگے یار وزارت میرے کانوں کے پاس گولی کی طرح سے گزر گئی۔میں نے کہا عزیز کون سے کان کے پاس سے ہنسنے لگے کہا کہ میں پاس ہوتا تو آپ کی گردن آگے کر دیتا اکیلا بھٹو شہید تو نہ وہتا۔جدہ کا زہرہ اس لحاظ سے بڑا نام رکھتا ہے کہ وہاں ملک محی الدین بیٹھتا ہے ریاض بخاری چودھری اکرم ہوتا ہے۔کسی زمانے میںہاکی کے منظور سینئر پی آئی اے کے جناب ملک ایوب،کرنل ذکاء اللہ،راجہ وزیر، چودھری شہباز، ڈاکٹر غلام اکبر نیازی،ریاض فاروق ساہی،راجہ اکرم،اشفاق سیٹھی ،انجینئر اسحق ، نعیم بازید پوری، رفیق عارف،احمد بشیر، افضل گوندل ،مظہر، عابد، مختار، سردار شیر بہادر ،سہیل ضیاء بٹ،ملک منظور، مرزا آفتاب، نعیم بٹ منور ہاشمی، خالد منہاس، حامد ولید، ملک سرفراز، مسعود پوری، فاروق جاوید، زبیر بدر، احسان الحق اور خاکسار بھی بیٹھتے تھے۔

روئف طاہر جنید سلیم نورجرال افضل جٹ،دلشاد جانی،ڈاکٹر حسین پراچہ، عنائت جاڑا قاری شکیل ارشد خان بھی آئے اور آ کر چلے گئے کتنے وزیر کچھ ناظم ضلع کوئی سیاست میں نام کما گئے۔شہر بھی ادھر ہے لوگ بھی ہیں ملک محی الدین کا کا ہجوم دوستاں بھی ہے کچھ چہرے بدلے ہیں۔ملک حمائت ایک خوبصورت اضافہ
پنجابی میں ایک گیم تھی
کرموں کرمی کون کریا
انجینئر عزیز کریا
دائم آباد رہے گی دنیا ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری