موت سے واپسی (حصہ اول)

Grim Reaper

Grim Reaper

تحریر : صہیب سلمان
22اپریل1968ء معمول کے مطابق صبح چار بجے اٹھا تو محسوس کیا کہ طبیعت سخت مضحمل ہے اٹھنا چا ہتا ہو ں لیکن اُ ٹھنے کو جی نہیں چاہتا، خون میں حدت ہے ،اعضاء رہے تھے اندازہ ہوگیا کہ ذیابطیس بے قابو ہوگئی ہے چنانچہ صحت کو متزلزل پاکر صبح 9بجے میو ہسپتال لاہورکے فیملی وارڈ کمرہ نمبر 26 میں داخل ہوگیا ۔ڈاکڑ ی ٹیسٹ کئے تو معلوم ہواکہ خون میں شوگر بڑھ گئی ہے کچھ دن یہاں ٹھہر نا ہوگا ہر انسان جینے کی کو شش کرتا ہے میں نے بھی جم کر علاج کروانے کا ارادہ کیا۔داخل ہو نے کے چوتھے روز 6 بجے شام خوا جہ صادق کشمیری کمرے میں داخل ہوئے اور کہاکہ انارکلی کے ڈی-ایس-پی چوہدری مختار احمد اور سی- آئی-ڈی کے ڈی-ایس-پی مسٹر ضیاء جیلانی آئے ہیں ان کے پاس چٹان کے متعلق کوئی حکم نامہ ہے ضیاء جیلانی اندر میرے پاس آئے اس وقت ڈاکٹر جاوید اقبال میری عیادت کیلئے موجود تھے ضیاء جیلانی نے اپنی زنبیل میںسے ایک کا غذ نکالا اور کہا چٹان 22اپریل 1968ء کا شمارہ گورنر مغربی پاکستان کے حکم سے ڈیفنس آف رولز کی دفعہ 52کے تحت ضبط کیا گیا ہے۔

جرم کیا ہے ایک شذرہ بعنوان الحمداللہ سنسر کرائے بغیر چھاپاگیا ہے اور یہ اس حکم کی خلاف ورزی ہے جو یکم اپریل کو گورنر کی طرف سے مسڑایم -ایم عثمانی سی-ایس-پی ڈپٹی سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ کے دستخطوں سے جاری کیا گیا تھاکہ آئندہ کوئی اخبار یا رسالہ سنسر کرائے بغیر ایسا مواد شائع نہیں کرے گا جس میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے متعلق خبر یا تبصرہ کیا گیا ہو۔یہ سطور آغا شورش کشمیری کی کتاب ;موت سے واپسی ;سے لی گئیں ہیں۔اس کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ ان کا اخبار چٹان اس لئے بند کر دیا گیا کہ انہوں نے مختصر سطروںکا ایک کالمی شذرہ لکھاتھا جس میں یہ تھاکہ مشرق وسطیٰ کا مکتوب یہ قلم اقبال سہل مطبو عہ نوائے وقت 11اپریل پا کستان ایک خاص فرقے نے ربوہ سے نکل کر اپنی ریشہ دوانیاں سعودی عرب میں پھیلانی شروع کردی ہیں۔

حکومت سعودی عرب نے اس کا جائزہ لیاہے۔ میںنے فل سکیپ سائز کے اد حکمانہ پر الحمداللہ لکھا دستخط کئے اور ڈی-ایس -پی نے ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ ایک کاپی میرے حوالے کی اور دوسری کاپی دستخط لے کر اپنی زنبیل میں ڈال لی۔پھر اسی قدوقامت کا ایک اور کاغذ نکال کر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہاکہ گورنر پنجاب ان اختیارات کے تحت جو ڈیفنس آف پا کستان رولز سے متعلق حکومت مغربی پاکستان نے صدارتی سیکریٹریٹ کے آرڈر نمبر ایس-آر-او 171,166مجریہ 16نومبر 1966ء کی روسے تفویض کئے ہیں چٹان ڈیکلریشن بمسرت منسوخ کرتے ہیںجرم وہی الحمداللہ تھا۔

Shorish Kashmiri

Shorish Kashmiri

شورش کشمیری نے یہ بھی لکھا ہے کہ الحمداللہ تو ایک بہا نہ تھا اگر میرا جرم یہی ہوتا تو حکومت بر ہم نہ ہو نوائے وقت شامل تھا کیونکہ اصل مکتوب اس میں شائع ہوا تھا ۔ مختصراً یہ کہ صدر ایوب اور گورنر مو سیٰ مجھے زیر کرنے کی کوشش سے مایوس ہو چکے تھے کچھ خاص وزیروں نے میرے قلم و زبان کی نکتہ چینیوں نے انہیں طیش دلایا تھا اس لئے وہ اس اقدام پر تیار ہوگئے تھے۔ آغا شورش کشمیری نے یہ بھی لکھاہے کہ پاکستان بن جانے کے بعد انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی لیکن حمید نظامی اور شہید سہروردی کے اصرار پر سیاست میں حصہ لینا شروع کیاتھا۔ایوب خان نے سکندر مرزا سے حکومت چھینی تھی لیکن 1958ء کے مارشل لاء سے ک کچھ دن قبل میں سیاست سے ذہناً علیحدٰ ہ ہوگیا کسی جما عت یا رہنماء سے سیاسی واسطہ نہ رکھا چٹان کو ذہنی سرگرمیوں کا محور بنایا جو کہنا چاہتا اسی کے صفحات پر کہتا اور لکھتا۔

آغاشورش نے یہ بھی لکھا ہے کہ سکیرٹری اطلاعات مسعود الرئوف آئے اور مجھے کہاکہ گورنر صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں میں نے کہاکہ میںضرور ملوں گا فی الحال ہسپتال سے نکلنے کی ہمت نہیں وہ کہنے لگے کا ر مو جود ہے میرے ساتھ چلیں واپس میں آپ کو چھوڑ دوں گا میں نے اصرار کیا پھر کسی دن سہی۔ مسعودالرؤف نے ہسپتال سے ہی گورنرموسیٰ فون کیا مجھے نہیں معلوم کہ کیا بات ہوئی واپس جاتے ہوئے کہا کہ گورنر صاحب سے ضرورمل لینا آج نہیں تو کل شام 5 بجے گورنر کہتے ہیں کہ روزہ میرے ساتھ چھوڑیں میں نے مذاقً کہاکہ گورنر صا حب اور میرے روزے کا دس منٹ کا فا صلہ ہے ۔دوسرا رہی بات روزے کی میں بیمار ہوں اس لئے روزہ نہیں رکھتا۔

مسعوالرؤف اگلے روز آ ئے کار میں بیٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے جب میں گورنر ہاؤس پہنچا تو وہ نہایت خندہ پیشانی اور خوش روئی سے ملے گورنر موسیٰ نے دوران گفتگو بتایا کہ صدر ایوب کو تمہاری قید کرنے پر بہت دکھ تھا لیکن تمہارے اداریہ کی بیرون ملک اشاعت سے انہیں بہت صدمہ ہواتھا ان سے مل لو باتیں ان سے ہر موضوع پر ہوئیں مثلاً گورنر موسیٰ ذوالفقار علی بھٹو کے سخت خلاف تھے بتانے لگے کہ میں نے 1965ء کی جنگ کے دوران ا نہیں کنٹرول روم میں داخل ہونے سے روک د یا تھا ۔مو ضوع دلچسپ تھا تقر یباً د ہائی گھنٹے ملاقات جاری رہی۔

Sohaib Salman

Sohaib Salman

تحریر : صہیب سلمان