جمہوریت

Democracy

Democracy

تحریر : عقیل احمد خان لودھی
خواب آنا ایک فطری عمل ہے ہر شخص کا ان خوابوں سے روزانہ واسطہ ضرور پڑتا ہے زیادہ تر خواب نیند میں آتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ خواب دیکھنے کیلئے آپ پہلے بھرپور نیند ہی لیں جاگتی آنکھوں سے بھی خواب دیکھے جاسکتے ہیں تاہم نیند میں آنے والے خوابوں پر انسانی کنٹرول باقی نہیں رہ جاتا ہے۔سائنس کے مطابق نیند آنے کے 60 سے 90 منٹ بعد خواب آنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

1953 ء میں پہلی دفعہ سائنس دانوں نے دماغ کی اس کیفیت کا پتہ چلایاجس میں خواب واقع ہوتے ہیں. خواب دیکھنے کے عمل کے دوران آنکھ کی پتلی تیزی سے حرکت کرتی ہے، سانس اور دل کی دھڑکن میں بیقاعدگی پیدا ہوجاتی ہے اور سارا جسم شل ہو جاتا ہے۔ خواب انسان کے جس دماغی حصے میں بنتے ہیں، اسے برین سٹیم کہا جاتا ہے، یہ حصہ دل کی دھڑکن، معدہ کی حرکت اور پیشاب بننے کے عمل کو کنٹرول کرتا ہے۔خواب کی نوعیت کا تعلق خواب دیکھنے والے کے خوف، خواہش، تجسس اور ذہنی حالت پر ہوتا ہے۔ کسی چیز سے خوف زدہ شخص بار باراسی کے متعلق خواب دیکھتا ہے، مستقبل کے بارے میں پریشان شخص کچھ ماضی اور کچھ حال کو خواب کی صورت میں دیکھتا ہے۔ خواب کسی اشارے، تصویر اور پیغام کی طرف اشارہ کرتا ہے. یہ اشارے، تصاویر اور پیغام بڑے واضح ہوتے ہیں کیونکہ دماغ تسلسل سے کام کرتا ہے اور اعلیٰ درجہ کا تسلسل غیر لفظی اور علامتی ہوتا ہے جو بہت سارے مواد کو ایک مختصر تصویری شکل دیتا ہے۔

یہ تو تھی خوابوں کے متعلق کچھ سائنسی باتیں اب آگے بڑھتے ہیں اپنی خواب بیتی کی طرف ۔۔۔۔۔، کئی روز کی شب بیداری کے بعد راقم کی آنکھوں نے گزشتہ رات ہلکی سی نیند کو اوڑھ لیا تومجھے خوابوں نے اٹھا کر ایسی جگہ ایسی ریاست میں لے جا پھینکاجہاں سب کچھ عجیب اور دنیا سے منفرد ہورہا تھا، وہاں کے باسیوں نے اپنی تہذیب اور ثقافت ہی نہیں عزت غیرت و حمیت ہر چیز کو دائو پر لگا رکھا تھا۔ معاشرہ بدعنوانی،کرپشن، سرکاری خزانے کی لوٹ کھسوٹ، اشیائے خوردونوش میںبے دریغ ملاوٹ، ناجائز منافع خوری،دہشت گردی و فرقہ پرستی جیسی غلاظتوں خباثتوں کا شکار ہوچکا تھا۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ چند دہائیاں قبل آزاد ہونے والے اس ملک میں دنیا سے انوکھی جمہوریت آئی ہے جو چند خاندانوں اور ان کی اولادوں تک محدود ہے اور یہ چند خاندان دنیا بھر میں اپنی کرپشن ،لاقانونیت لسانی ،نسلی ،علاقائی تعصب پھیلانے کی عادت کی وجہ سے جان پہچان رکھنے کے باوجود بڑی عوامی حمایت رکھتے ہیں اور یہ کہ اس ریاست کے عام لوگ ایسے ہی لیڈروں کو پسند کرتے ہیں جو جیلوں کا ریکارڈ رکھتے ہوں بدعنوان ہوں بدمعاش ، بڑی بڑی ہانکنے والے ،ٹیکس چور،ٹیکس خور،جھوٹے ،بے ایمان اور بڑے دھوکہ بازاور انہیں ہر بار چونا لگانے والے ہوں۔

معلوم ہوا کہ ایک دو خاندان ہی ملکی اقتدار کی باریاں لے رہے ہیں مگر اس ملک کی تقدیر نہیںبدلی۔ملک میں جاری خاص قسم کی جمہوریت کی وجہ سے اس ملک کا اخلاقی زوال اس سطح تک پہنچ تھا کہ ہر محکمے، ہر ادارے میں بے ایمانی، رشوت خوری،کمیشن اور ناجائز طریقے سے دولت سمیٹنے کا طوفان سا بپا تھا، سیاست ایک نفع بخش پیشہ بن چکی تھی۔ہر طرف افراتفری ،نفسا نفسی کا عالم تھا کیا چھوٹا کیا بڑا سب کو قیامت کی سی جلدی مچی ہوئی تھی۔ہر کوئی اپنی اپنی دوڑ میں مگن کسی نامعلوم منزل کا مسافر اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر گاڑی میں پہلے سے سوار کو نیچے اتار کر خود منزل پر پہنچنے کے چکر میں ۔اس طرح کے شارٹ کٹ چکروں کی تقریبا ہر شخص کو عادت تھی وہاں موجود سبزی فروش سے لیکر ریڑھیوں اور چھابڑیوں پر دیہاڑی لگانے والے کیا بڑے بڑے پلازوں کوٹھیوں اور ملوں کے مالک سبھی کسی انجان سی دوڑ میں تھے ۔ریاست میں کہیں قانون قاعدہ نام کی چیز باقی نظر نہیں آرہی تھی جس کا دائو لگا ہوا تھا پورا لگا ہوا تھا ہر کوئی اپنی اپنی کوشش میں خوش اگر کوئی رو رہا تھا تو وہ ایسا تھا کہ جس کا اپنے تئیں کوئی دائو پیچ نہ لگ سکا یا وہ راقم کی طرح ا تنا کاہل اور سست تھا کہ وہ قانون کے دائرے میں رہنے کی آڑ میں دائو لگانے سے غفلت برت رہا تھا۔ وہاں کی بھینسیں اور گائیںخالص دودھ تو دیتی تھیں مگر دودھ لوگوں تک پہنچتے پہنچتے میٹھا زہر تو ہوتا تھا دودھ نہیں رہتا تھا۔ زندگی کے وجود کیلئے اہم ترین ضرورت پانی وافر مقدار میں موجود تھا مگر زمین کے نیچے موجود پانی کو کھلے عام زہر آلود کیا جارہا تھا یہ جانتے ہوئے کہ بھی بہت جلد زہر آلود پانی رگوں میں اترنے سے خود ہی معذرت کرلے گا۔وہاں مردہ،حرام جانوروں کی ہڈیوں اور گوشت سے خوردنی آئل تک تیار کیا جارہا تھا گدھوں اور کتوں کے گوشت کے فروخت کی باتیں عام ہوچکی تھیں،،شراب نوشی اورفروخت کی پابندی تو تھی مگر وہاں کے پارسا حکمران ، ان کی اولادیں ، ان کے گماشتے ان دھندوں میں مصروف اوران مکروہات میں ملوث افراد کی پشت پناہی کے کررہے تھے۔

مسیحائی کے پیشے سے وابستہ افرادحکمرانوں کی طرز پر عوام الناس کی چمڑیاں ادھیڑنے میں مصروف تھے سرکاری ہسپتالوں سے غریبوں کیلئے موت کے پروانے جاری ہورہے تھے جبکہ پرائیویٹ ہسپتالوں پرعلاج معالجہ کا سن کر ہی غریب لوگ راہ عدم سدھار رہے تھے۔تعلیمی شعبہ کا حال یہ تھا کہ سرکاری سکولوں کالجوں سے ذہنی معذور نسل تیار کی جارہی تھی جنہیں کسی بھی سرکاری ادارے میں کسی پوسٹ پر تعینات کرنے سے قبل امیدوار کا اوپر سے نیچے تک سرکاری جائزہ کچھ اس طرح سے لیا جاتا کہ جیسے سرکاری سکول سے پڑھ کرکوئی کبیرہ گناہ کر آیا ہو۔وہاں کے روحانی پیشوا ئوں کی بڑی تعداد لوگوں کیلئے نفرتوں کے سامان بانٹ رہی تھی وہاں کے علماء اپنے لئے عیش وعشرت کی تلاش میں کرپٹ حکمرانوں کیلئے دنیاوآخرت میں جنت بانٹنے میں مصروف تھے۔من پسند افراد کو نوکریاں سے نوازا جارہا تھا۔ مختلف ٹیسٹوں کی آڑ میں عام طبقات کو آگے آنے سے روکا جارہا تھا۔تھانوں اور عدالتوں میں غریب آدمی کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی تھی فریقین کی دولت کیساتھ ساتھ اثر ورسوخ کو دیکھ کر کاروائیاں آگے بڑھائی جارہی تھیں،ان اداروں کے اہلکار غنڈہ گردی، بدمعاشی، لاقانونیت کو پروان چڑھانے میں براہ راست ملوث تھے کمزوروں کی زمینیں جائیدادیں ہتھیانا بہت آسان تھا کمزور عدالتوں میں دھکے کھاتے نظر آتے تھے بااثر لوگ غریبوں کی زمینوں پر قبضے کرکے عدالتوں اور تھانوں کے ذریعے ہی تحفظ حاصل کررہے تھے۔ میڈیامیں نمایاں ہونے والے کیسز پر کوئی توجہ دے دی جاتی تو دے دی جاتی ورنہ عام آدمی کی کوئی درخواست بھی قبول نہیں کی جارہی تھی ۔زیادہ ترمیڈیا والوں کے لئے لفافہ ہی ان کا ایمان مذہب دھرم سب کچھ بن چکا تھا یہاں کا میڈیامخصوص ،من پسند شخصیات کو پروان چڑھا کر گندی سیاست کی آبیاری میں مصروف تھا۔

بے حیائی اور فحاشی کو پروموٹ کیا جارہاتھا۔ ٹی وی چینلز کے مختلف پروگرامز بالخصوص مارننگ شوز کے ذریعے اخلاقیات کا جنازہ نکالا جارہا تھا ۔ملک کے نصف حصہ میںملکی آزادی کی کئی دہائیوں بعد بھی لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے جنہیں صاف پانی،ٹرانسپورٹ علاج معالجہ کی سہولیات سرے سے ہی ناپید تھیں، حاکموں اور وڈیروں کی غلامی کا رواج جاری تھا۔جیلیں عام اور غریب آدمیوں سے بھری ہوئی تھیںعدالتوںمیں فیصلوں کے لئے سودے بازیاںہوتی تھیں وکلاء کی حیثیت کے مطابق فیصلے ہوتے۔مخصوص اور بااثر لوگوں کو بچانے کیلئے ایمرجنسی میں عدالتیں سجا کر منٹوں میں کاروائی مکمل جبکہ غریب اور مجبور لوگوں کیلئے بلاوجہ تاریخیں ڈالکر انہیں واپس جیلوں میں بھجوایاجارہا تھا۔ان سب کے باوجودلوگ چند سیاسی لوگوں کی تقلید میں اس قدر اندھے ہوچکے تھے کہ اپنے رہنمائوں کے تمام تر کالے کرتوتوں کودیکھ بھال کر بھی ،خود ان سیاسیوںکی جانب سے ایک دوسرے کے کرتوت منظر عام پر لانے کے باوجود اپنے لیڈروں کیلئے عزتیں تک لٹانے کیلئے تیار تھے،بظاہر تو وہ آزاد ریاست تھی مگر غیروں کی غلامی میں اس قدر لتھڑی ہوئی تھی کہ غیر آقائوں کے سامنے اپنی مائیں اور بیٹیاں بھی لا کر کھڑی کرنے میں بھی عار نہیں سمجھا جارہا تھا۔ میڈیا کے توسط سے دکھائی جانے والی سرکاری ،نجی تقریبات میں واضع طورپر اس قوم کی بہنیں اور بیٹیاں غیروں کے سامنے بے پردہ اور نامحرموں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالکر نمائش کرتی نظر آئیں۔ عام آدمی کی اپنے ملک کے حکمرانوں تک رسائی نظر نہیں آرہی تھی ،لوگوں کو گلہ تھا کہ حکمران انتخابات کے بعد اپنے وعدے پورے نہیں کرتے بڑی بڑی قسمیں کھا کر جھوٹ بولتے ہیں۔

چونکہ یہ شیطانی جمہوریہ تھی اس لئے وہاں کے حکمرانوں نے کبھی راہ راست پر آنے کا نہیں سوچا تھا نہ ہی وہ لوگوں کو خدائے وحدہ لاشریک کے احکامات کی پیروی کی ترغیب دیتے تھے انہوں نے کبھی اپنی عوام کو نماز روزہ زکوة حج کیلئے نہیں کہا ۔دہشت گردی کے ناسور نے وہاں زندگی اجیرن کر رکھی تھی، عام آدمی گھروں سے نکلتے تو دل کو دھڑکا سا لگا رہتا کہ نجانے کب اور کہاں کس گلی میںکوئی راہزن ،لٹیرالوٹ لے یا دھماکہ، فائرنگ ہو اور زندگی کی شام ہو جائے۔ اکثر ہونیوالی مجرمانہ وارداتوں اور دھماکوں میں ہمیشہ عام لوگ ہی مارے جاتے تھے حکمران یا ان کی اولادیں محفوظ تھیں ۔ شیطانی جمہوریہ کے حکمران اور ان کی اولادیں صرف اس وطن پر حکمرانی کرنا آپ حق سمجھتے تھے ورنہ تو وہ خود اور ان کی اولادیں دوسرے ملکوں میں قیام پذیر تھے الیکشن کے دنوں میں ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ لاثانی کرپٹ سیاستدان ایک طرف اس ریاست میں لامحدود ترقی کے دعویدار تھے تو دوسری جانب حالت یہ تھی کہ اپنے معمولی علاج معالجہ کیلئے بھی انہیں اپنے ملکی اداروں کی کارکردگی پر اعتماد نہ تھا۔

اس ملک میں توانائی کا بحران تھاسیاستدان توانائی کے بحران اور ملکی تقدیر بدلنے کے نام پر گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں کی پہلے سے بے وقوف ( قابل رحم )عوام کو مزید بے وقوف بناتے تھے میں نے بھی خواب ایک دو سیاستدانوں کی یہ تقرریں اور دعوے سنے مجھے تو خیر کافی مضحکہ خیز لگے مگر میں نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ جھوٹے رہنمائوں کے سامنے سدھائے ہوئے بندروں کی طرح سر ہلاتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملارہے تھے۔ملک کی تقدیر بدلنے کے دعویدار تیزی سے ملکی دولت لوٹنے میں مصروف رہ کر اپنی اور خاندانوں کی تقدیریں سنوارنے میں مگن تھے۔لوٹ مار کے ذریعے اکٹھی کی گئی ملکی دولت بیرون ممالک کے ذاتی اکائونٹس میںمنتقل کی جارہی تھیں۔حکمرانوں کی پیروی میں ہر شخص بقدر جثہ لوٹ مار کررہا تھا۔ اربوں کھربوں کی کرپشن کرنے والوں کو پوچھنے کی کسی ادارے میں سکت نظر نہیں آتی تھی اگر انہیں چند روز کیلئے حراست میں لیا بھی جاتا تو بطور مہمان ان کی خاطر تواضع کی جاتی اور اربوں کھربوں کی کرپشن کرنے والوں کو چند لاکھ روپے کی ضمانت کے عوض عدالتوں سے رہا کیا جارہا تھا تاہم چھوٹی موٹی چوری چکاری کی وارداتیں کرنے والوں کیساتھ قانون آہنی ہاتھوں نمٹنے کیلئے موجود تھا۔ہر طرف یہی ہاہو کار مچی ہوئی تھی کہ جیسے کوئی دنیاوی جہنم ہو اور بس قیامت زلزلوں،پتھروں کی بارش اور بڑے طوفانوں کا انتظار کیا جارہا ہو۔میں اس ماحول کو بدتر سے بدترین ہوتا دیکھا کر خواب میں ہی تھر تھر کانپناشروع ہوگیا اور اسی خوف میں اچانک میری آنکھ کھل گئی میں نے خود کو اپنے بستر پر پایا ۔اللہ تعالیٰ کا اس پر کروڑوںبار شکر ادا کیا کہ میں کسی دوسری ریاست میں نہیں بلکہ وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں موجود تھا۔الحمد اللہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں۔ الحمد اللہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں۔۔۔ آج ہی شکرانے کیلئے اللہ کے حضور دو رکعت نماز نفل ادا کروں گا۔کہتے ہیںشیطان لوگوں کو پریشان اورغمگین کرنے کے لیے تصرفات سے کام لیتا ہے۔ جن لوگوں کو اس طرح کے خواب آئیں، انہیں چاہیے تین دفعہ بائیں طرف تھوک دیں، شیطان کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں، اپنا پہلو بدل لیں اور اس کا ذکر کسی سے نہ کریں۔

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

تحریر : عقیل احمد خان لودھی