جمہوریت کا تاریخی جائزہ

Democracy

Democracy

تحریر : علی عبداللہ
“انسان ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے _ لہٰذا کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ انسان کو اپنا غلام بنائے ” یہ اس اعلان کے ابتدائی جملے ہیں جسے اعلان آزادی کہا جاتا ہے _ امریکہ کو برطانیہ سے آزاد کروا کے اعلان آزادی کرنے والا یہ شخص جارج واشنگٹن تھا اور یہ آزاد جمہوریت کی پہلی باقاعدہ شکل تھی _ دور جدید میں جمہوریت کو ہی بہترین نظام قرار دیا جاتا ہے اور جو شخص جمہوریت پر اعتراض کرے اسے سیاست میں جاہل سمجھا جاتا ہے _ دنیا میں رائج مختلف سیاسی نظاموں میں سے ایک جمہوری نظام بھی ہے _ اس کی اہمیت کے پیش نظر آجکل ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ اسے جمہوری نظام کی تاریخ اور نظریات کا علم ہو۔

جمہوریت انگریزی لفظ “ڈیموکریسی” کا ترجمہ ہے اور عربی میں اسے “دیمقراطیہ” بولا جاتا ہے _ گو کہ سیاست کے شہسواروں کے درمیان جمہوریت کے معنوں میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن جمہوریت کے روایتی معنی ہیں, ” ایسی حکومت جس میں عوامی رائے کو کسی بھی شکل میں حکومت کی پالیسیاں بنانے میں بنیاد بنایا جائے ” جمہوریت جدید دنیا کی پیداوار نہیں بلکہ عہد یونان میں بھی جمہوریت کا نظریہ موجود تھا _ وہاں جمہوریت کا تصور سادہ اور محدود سا تھا جس میں ایسا کوئی دستور موجود نہیں تھا جو طے کرے کہ کن معاملات میں عوام رائے دے سکتی ہے اور کن معاملات میں بادشاہ عوامی منظوری کے بغیر کوئی فیصلہ کر سکتا ہے _ یونان کے چھوٹے چھوٹے شہر ایک مستقل ریاست ہوا کرتے تھے جن میں سپارٹا اور ایتھنز وغیرہ مشہور ہیں _ ان ریاستوں میں بادشاہ عوامی رائے لینے کے لیے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرتے اور کسی بھی فیصلے میں عوامی رائے طلب کر لیتے تھے _ لیکن جن ملکوں کی آبادی بڑی تھی اور وہاں ایسا ممکن نہیں ہوتا تھا جیسا کہ سلطنت روم وغیرہ, وہاں جمہوریت کے اس تصور کو محدود کر دیا گیا اور بادشاہوں نے اپنے مشورے اور رائے کے لیے مجلس شوریٰ اور کونسل بنا لیں _ رفتہ رفتہ عوام کو رائے میں شامل کرنا ختم ہوتا چلا گیا _ مطلق العنانی نظام میں جمہوریت عملی طور پر دم توڑ گئی۔

غالباً اٹھارویں صدی میں دوبارہ سے جمہوری تصورات نے سر اٹھانا شروع کیا اور آزاد خیال جمہوریت کی بنیاد ڈالی گئی _ جدید جمہوریت کے بانی تین لوگوں کو سمجھا جاتا ہے جن میں وولٹائر, مونٹیسکو اور روسو شامل ہیں _ یہ تینوں اشخاص فرانس سے تعلق رکھتے تھے اور انہی کے نظریات کے نتیجے میں جدید جمہوریت وجود میں آئی _ وولٹائر نے فلسفے , سائنس اور آرٹ پر بہت سی کتابیں لکھیں _ اسکا خیال تھا کہ تمام آسمانی مذاہب تحریف شدہ ہیں اور اب مذہب صرف ایک ہی ہے جسے اس نے فطری مذہب کا نام دیا _ دوسری بات جو اس نے کی وہ یہ تھی کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے اس میں چرچ یا حکومت کسی کو اختیار نہیں کہ وہ اس میں دخل اندازی کر سکے _ اور جب یہ بات طے ہو گئی کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے تو سیکولرازم وجود میں آیا _ ان سب نظریات کے پیدا ہونے کی بنیادی وجہ چرچ کا مذہب کے نام پر ظلم و ستم ڈھانا تھا _ جمہوریت کی نئی صورت پیش کرنے والا دوسرا شخص مونٹیسکو تھا۔

اس کا نظریہ تفریق اختیارات کا نظریہ کہلاتا ہے _ اس کے مطابق اختیارات کسی ایک شخص یا ادارے کو نہیں سونپنے چاہییں بلکہ مختلف اختیارات مختلف اداروں یا افراد میں تقسیم کر دیے جانے چاہییں اور یہ افراد اور ادارے مکمل آزاد ہوں _ اسی بنیاد پہ قانون سازی کو مقننہ کا نام دے کر الگ ادارہ قائم کیا گیا _ قانون کے مطابق ملک چلانے کا اختیار جس ادارے کو سونپا گیا اسے انتظامیہ کا نام دے دیا گیا _ اسی طرح قانون کی تشریح اور تصفیہ کے لیے عدلیہ کے نام سے تیسرا ادارہ قائم ہوا _ مونٹیسکو کے مطابق ان تمام اداروں کو خود مختار ہونا چاہیے کوئی کسی دوسرے کے کاموں میں دخل اندازی نہ کرے _ تیسرا شخص روسو تھا جس نے جمہوریت کی صورت گری کی _ اسی نے ہی مشہور معاہدہ عمرانی میں تجدید کی اور کہا کہ معاہدہ عمرانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی حکومت میں افراد کو آزادی ہو اور حکومت افراد کی نمائندہ ہو _ عوام اپنی حکومتوں کی نمائندگی کرے اور ہر فرد کے مفادات کا تحفظ کیا جائے _ ان تین بنیادی نظریات کے نتیجے میں جدید سیکولر جمہوریت وجود میں آئی۔

جدید دنیا میں جمہوریت امریکہ کی آزادی اور انقلاب فرانس سے تیزی سے پھیلی اور اب ہر ملک جمہوریت نافذ کرنے پر کوشاں ہے _ درحقیقت انقلاب فرانس پوری دنیا میں جمہوریت کے نفاذ کا سب سے اہم سبب سمجھا جاتا ہے کیونکہ امریکہ یورپ سے بہت دور ہے اور وہاں کے جمہوری نظریات بہت زیادی مؤثر طریقے سے یورپ تک نہیں پہنچ پائے تھے۔

Ali Abdullah

Ali Abdullah

تحریر : علی عبداللہ