کہیں ایسا نہ جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

Democracy

Democracy

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
کالم سے ڈر لگتا ہے اگر فوج اونٹ ہے تو ڈر ہے کہ کسی وقت جمہوریت کی گچی مروڑ دی جائے گی میں پھر جیل چلا جائوں گا مدرسوں میں پھر لاشے ہوں گے؟بارہ پڑے لوگوں کی گردنوں میں سریہ ہو گاکیا کریں قوم کی اک طرف کنواں ہے اور دوسری جانب کھائی۔جائیں تو جائیں کہاں؟عبدالودود قریشی بڑے تگڑے صحافی ہیں، پنڈی وال ہیں شیخ رشید حاجی نواز رضا پرویز رشید کے زمانہ ء طالب علمی سے تعلق ہے میرا تعلق خبریں کی وجہ سے بنا۔وہ یہاں اسلام آباد خبریں کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی رہے ہیں ان کا کالم دیکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ فوج ایک اونٹ ہے وہ اپنے دشمن کبھی نہیں بھولتی جب وقت آئے گا وہ گردن مروڑ کے رکھ دے گی انہوں نے جنرل مجیب الرحمن کا حوالہ دیا ان کا یہ بھی کہنا تھا جس طرح بھٹو کو احمد رضا قصوری کی ایف آئی آر لے ڈوبی کسی وقت حکمرانوں کو یہ ادھار سود سمیت چکانا ہو گا۔

بات بھی ٹھیک ہے آپ میاں نواز شریف کو اکیلا نہ سمجھیں انہوں نے بارڈر پر موجود سب سے بنا رکھی ہے ایسا لگ رہا ہے کہ ایران ، افغانستان، بھارت امریکہ اسرائیل سب کہہ رہے ہوں قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔۔اگر آپ کل سے انڈینزچینیل دیکھیں تو فوج کی ہزیمت پر بغلیں بجائی جا رہی ہیں ٹویٹ کی واپسی پر جشن منایا جا رہا ہے جیسے ڈھاکہ فال ہوا ہے(اللہ نہ کرے) ایسے میں ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ نئی صف بندیوں میں بھارت کس کے ساتھ کھڑا ہے۔

غصہ ہمیں بھی آیا اور اس کا اظہار بھی کیا لیکن موجودہ حالات میں انڈیا نے فوج کو کمزور کر کے اپنے معاملات سیدھے کرنے ہیں۔اس نے کلبھوشن کیس کو عالمی عدالت میں کس لئے پیش کیا ہے۔اب فیصلہ وہاں سے آئے گا کہ اس ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑ دو؟آج آپ کو پتہ چل گیا ہو گا کہ کل وقتی وزیر خارجہ کیوں نہیں ہے؟وہ اس لئے کہ کوئی بھی وزیر خارجہ حکمرانوں کی بھارت دوستی کا بھانڈہ پھوڑ سکتا ہے اور وہ وزیر خارجہ بھٹو ثابت ہو سکتا ہے جس نے تاشقند معاہدے کو ایوب کے خلاف استعمال کیا۔شائد اسی لئے اس قسم کی وزارتیں میاں صاحب نے اپنی جیب کی گھڑی بنا کے رکھی ہوئی ہیں۔

جان لیجئے ان حالات میں کلبھوشن کو پھانسی نہیں دی جائے گی۔ہمیں اپنی اوقات میں رہ کر کام کرنے چاہئیں معاشی طور پر قرضوں میں جکڑا ملک کیا پھرتیاں دکھا سکتا ہے؟ہماری عسکری طاقت کی بنیاد امریکی ساخت کا اسلحہ ہے جہاز ہیں ایک نٹ نہ ملے تو یہ سب کھڑے کے کھڑے رہیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج کو سر عام سولین حکومت کے خلاف نہیں کھڑا ہونا چاہئے تھا۔فوج کی یہ منہ زوریاں کسی بھی جمہوری معاشرے میں نا قابل قبول ہوتی ہیں۔ میاں نواز شریف کے دور میںجہانگیر کرامت نے ایک بار ایسا کیا تھا انہیں چلتا کر دیا لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد فوج نے NO MORE JKکا نعرہ ء مستانہ بلند کر کے سولین حکومت کو گھر بھیج کر ملک میں سیاہ قانون نافذ کر دیا جس کے نتیجے میں پاکستانیوں پر مشرف کی فسطائی حکومت مسلط ہوئی اور تو اور خاکسار کو بھی انہی دنوں رگڑا لگا اور جدہ کی مقدس سرزمین پر اشرفیہ کی ترحیل میں اکہتر دن کا چلہ کاٹنا پڑا۔جب اس دور کو یاد کرتے ہیں تو جی چاہتا ہے کوئی افریقہ کا وحشی حکومت سنبھال لے مگر کسی مشرف جنرل اسد درانی سے پالا نہ پڑے۔اسی بات کا اب بھی ڈر ہے اور یہیں جنرل مجیب کی بات ڈرا کے رکھ دیتی ہے۔پاکستانی اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہیں کچھ دوست کہہ رہے ہیں بہت اچھا ہوا معاملات سدھر گئے اور کئیوں کا خیال ہے سوا ستیا ناس ہو گیا۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت اندرونی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔سرحدوں کی صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ فوج سولین حکومت کے ساتھ کھڑی ہو۔البتہ عمران خان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ مسئلہ فوج اور نواز شریف کا نہیں بائیس کروڑ عوام کا ہے جنہیں یہ جاننا ہے کہ ڈان لیکس میں ہوا کیا اور آرمی چیف اور وزیر اعظم کی ملاقات میں کیا طے ہوا؟جی ہاں یہ بھی ٹھیک ہے کہ ڈان لیکس کیس میں فواد حسن فواد نے گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کی کوشش کی ہے اس کا خط دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ موصوف نے اس معاملے کی حساسیت کا ذرا بھر احساس نہیں کیا۔

جناب نے دو صحافیوں کا معاملہ اے پی این ایس کے حوالے کر دیا گیا ہے جو موقع سے فائدہ اٹھا کر اشتہارات کے نرخ بڑھا کر چپ ہو جائے گی۔یہ بلکل ایسا ہی ہے کہ نواز شریف کوئی غلطی کریں اور ان کا معاملہ نون لیگ کی مجلس عاملہ کے سامنے پیش کر دیا جائے۔انصاف کہیں نہیں دکھائی دیتا۔سچ پوچھیں عدلیہ کے لولے لنگڑے فیصلے نے قوم کی چولیں ہلا کے رکھ دی ہیں۔کاش وہ پانچوں ہی کہہ دیتے کہ جائو نواز شریف تم بری ہو قوم ایک بار ہی رو لیتی۔

مگر ہوا یہ کہ بندے کی موت کی خبر تو مل گئی مگر لاش نہیں مل رہی اس کرب سے گزرنے والے لواحقین جس صورت بد سے گزرتے ہیں قوم سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الجھن کا شکار ہے۔کیا کرے گی جے آئی ٹی اور کیا بنے گا کلبھوشن کا ،قوم بھول جائے اور ایک مدت کا ظلم سہتی رہے نیکی کر کے اس دنیا سے چلے جائیں تو صدقہ جاریہ ہوتا ہے جسٹس منیر کی قبر میں آگ بھڑکتی رہے گی جس نے نظریہ ء ضرورت کو متعارف کروایا اور اس بینچ کو بھی ایک اعلی عدالت میں پیش ہونا ہے جو ایک رکنی ہے جس کے اشارے سے کائنات بنتی ہے اور جو بنانا بھی جانتا ہے اور تباہ و برباد کرنا بھی۔سوال یہ ہے کہ ہمارے جرنیل،ہمارے جج،ہمارے جرنلسٹس حیات بعد از موت پر یقین رکھتے ہیں اگر رکھتے ہیں تو پھر احتساب کے لئے تیار ہو جائیں جہاں میں بھی اور یہ بھی اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے۔میں عوام میں سے کھڑے ہو کر ان سے ضرور پوچھوں گا کہ آپ میں ایک کیس سنتا رہا اور سنتے سنتے کہہ اٹھا میری تو ریٹائرمینٹ ہے میں جا رہا ہوں اور باقی پانچ سے پوچھوں گا کہ کیا جنا؟ پوری قوم اس بچے کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی ہے کہ یہ ہے کیا؟
دو ہی چیزیں ہیں یا مصلحتوں کا شکار بن کر بھیگی بلی کی طرح زندگی گزار دیں ایک سکم بھوٹان اور بنگلہ دیش بن جائیں یا پھر عوام اٹھ کھڑی ہو اس ایک بندے کے ساتھ جسے لفظ ادا کرنے کا فن نہیں آتا جو چڑ چڑا ہو کر گالیاں دینے کے قریب کی گفتگو کرتا ہے۔لیکن کیا دوست اور کیا دشمن کہتے ہیں کہ بندہ ہے سچا۔عبدالودود قریشی کے کالم سے ڈر لگتا ہے اگر فوج اونٹ ہے تو مجھے ڈر ہے کہ جمہوریت کی گچی مروڑ دی جائے گی میں پھر جیل چلا جائوں گا مدرسوں میں پھر لاشے ہوں گے۔سوچتا ہوں اور بار بار سوچتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔

ENGR IFTIKHAR CHAUDHRY

ENGR IFTIKHAR CHAUDHRY

تحریر : انجینئر افتخار چودھری