ہر خواہش پہ دم نکلے

Desire

Desire

تحریر: ابن نیاز
تیس سال کی ایماندارانہ نوکری کے بعد صادق صاحب ریٹائر زندگی گزار رہے تھے۔ اس پورے عرصے میں انھوں نے عزت کمائی تھی اور عزت سے زندگی گزاری تھی۔کبھی کسی کو جرات نہیں ہوئی تھی کہ ان کے کام پر یا ان کی ذات پر انگلی تک اٹھا سکے۔اور انھوں نے اپنی اولاد کو بھی اسی ایمانداری کا سبق پڑھایا تھا۔یہ نیک اولاد ان کی زندگی کا ثمر تھی۔ان کے خاندان والے بھی صادق صاحب کی زندگی اور ان کی اولاد کی مثالیں دیتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے ان پر اتنا کرم رکھا تھا کہ ساری زندگی کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا۔اس ذات پاک نے ہمیشہ انکی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا تھا۔جب نوکری اس مرحلہ پر پہنچی کہ پورے ماہ کے اخراجات کے بعد کچھ تھوڑا بہت بچا سکیں تو ان کو خواہش ہوئی کہ اپنی چھت تان سکیں۔ یہ سوچتے ہوئے انھوں نے رقم پس انداز کرنا شروع کر دی۔ کیونکہ جتنا عرصہ وہ نوکری کرتے رہے ، کرائے کے گھر میں رہے۔ حتٰی کہ ریٹائر ہوئے تو بھی گھر کرائے کا ہی تھا۔

ہر پانچ دس سال بعد مکان تبدیل کرتے۔ کبھی ایک وجہ ہوتی تو کبھی کوئی دوسری۔ اللہ نے صادق صاحب پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔ نہ صرف بڑا بیٹا جمال شادی کی عمر کو پہنچ چکا تھا بلکہ بیٹی کی عمر بھی بیاہنے لائق تھی۔بیٹے کی شادی کرنے سے اس لیے کترا رہے تھے کہ کرائے کے گھر میں بہو لانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔اوپر سے بیٹا بھی ایسا کہ شادی کی فکر ہی نہیں تھی۔ یہ نہیں کہ غلط کاموں میں ملوث تھا۔بلکہ اس نے کبھی شادی کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ صبح نوکری پر جانا، شام کو دوستوں کے ساتھ مل کر کوئی کھیل کرکٹ، فٹ بال کیرم وغیرہ کھیلنا یا پھر چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر گپ شپ کرنا، رات کو سوتے تک کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنا جو کہ در حقیقت اسکا مشغلہ تھا۔ بس یہ لگا بندھا وقت کا ایک دھارا تھا، جس کے ساتھ جمال بہتا رہتا تھا۔

Allah

Allah

صادق صاحب نے ایک دن اپنے دوستوں سے مشورہ کیا۔اپنی نیک سیرت بیوی سے اصلاح لی اور نتیجہ بیٹے کی شادی کی صورت میں نکلا۔کبھی کبھی کسی گھر کو کوئی خوشی راس نہیں آتی۔ صادق صاحب کے گھر بھی برسوں بعد یہ خوشی آئی تھی۔جب شادی کی تقریبات جاری تھیں تو کسی نے پوچھا کہ وہ بہت اترا اترا کر چل رہے ہیں تو صادق صاحب نے انتہائی عاجزی سے جواب دیا کہ یہ اترانا اصل میں اللہ کی طرف سے ہی ہے۔ آج اس ذات پاک نے اس قابل بنایا کہ وہ بھی اپنے بیٹے کی شادی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اتنا خرچہ کرنے کے قابل ہوں گے۔تو بس اللہ کا شکر مجھے یہ سب کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔خیر ابھی اس خوشی کو ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ انکے دوسرے بیٹے شہزاد سے ایک ایکسیڈنٹ ہو گیا۔وہ اور اسکے دفتر کے کچھ ساتھی کرائے کی گاڑی لیکر دفتر کے کسی کام سے دوسرے شہر گئے تھے۔

واپسی پر کوئی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ بارش کی وجہ سے پھسلن روڈ پر گاڑی پھسل کر روڈ کے کنارے پر پلی کی رکاوٹ کو توڑتے ہوئے کوئی بیس فٹ کی گہرائی میں جا گری۔گاڑی کوتو نقصان پہنچاہی تھا لیکن گاڑی کے اندر موجود شہزاد کے دو دوست موقع پر ہی فوت ہو گئے جب کہ ایک کی ٹانگ فریکچر ہو گئی۔ شہزاد گاڑی چلا رہا تھا۔ بظاہر تو اسے کوئی زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی بس ہلکی ہلکی خراشیں آئی تھیں لیکن اندرونی طور پر کافی دبائو آیا تھا۔پولیس موقع پر پہنچی متوفیوںاور زخمیوں کو گاڑی سے نکالا اور انھیں تھانے کے ساتھ ہی بنے ہوئے ہسپتال پہنچایا۔

گاڑی چونکہ شہزاد نے کرایہ پر لی تھی تو گاڑی کے مالک نے گاڑی کا سارا ہرجانہ شہزاد پر ڈال دیا۔ جو کہ کوئی اڑھائی لاکھ کے قریب تھا۔ کیونکہ انجن تک کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ جبکہ صرف شہزاد والی سائیڈ چھت سے نہیں چپکی تھی باقی ساری چھت گویا فرش سے لگ گئی تھی۔دروازے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ مکینک نے یہ کم از کم خرچہ بتایاتھا۔صادق صاحب کے لیے یہ ایک شدید جھٹکا تھا۔ کیونکہ انکا پروگرا یہ تھا کہ جمال کی شادی کے بعد جو رقم بچی تھی وہ اور کبھی بھلے وقتوں میں تھوڑی تھوڑی رقم بچا کر شہر میں ایک پلاٹ لیا تھا ، اسکو بیچ کر اپنے آبائی شہر میں کوئی سستا سا پلاٹ خرید کر اس پر دو تین کمروں کا ایک کچا پکا مکان تعمیر کردیں گے۔ لیکن اللہ کی حکمتیں اللہ ہی جانے۔ایک تو گاڑی والوں کا دعویٰ دوسرا پولیس نے بھی اپنی طرف سے وفات پانے والوںکو مدعی بنا کر شہزاد کے خلاف ایک مقدمہ دائر کر دیا تھا کہ تیز اور لاپرواہ ڈرائیونگ سے گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ ضمانت پر شہزاد کو رہائی تو مل گئی تھی لیکن ہر ہفتے یا دوسرے ہفتے مقدمے کی پیروی کے لیے جانا پڑتا۔اگر مقدمہ اپنے شہر میں ہوتا تو کم از کم آنے جانے کا خرچہ تو نہ ہوتا۔لیکن شہر دوسرا تھا۔ وکیل کو بھی ساتھ لے جاتا پڑتا تھا۔ تو اسکی خاطر کرائے کی گاڑی بکنگ پر لائی جاتی۔صادق صاحب کی ذہنی تکلیف میں اس وقت مزید اضافہ ہوتا جب انکی واپسی پر یہ پتہ چلتا کہ آج جج چھٹی پر تھا یا وکیل استغاثہ نہیں تھا، جسکی وجہ سے مزید ایک تاریخ پڑ جاتی۔

Life

Life

وقت گزرتا گیا، دن ہفتوں مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہو گئے۔ لیکن پاکستان میں شاید ہی کسی مقدمے کا فیصلہ دنوں یا ہفتوں میں ہوا ہو گا۔ سو شہزاد کی قسمت میں بھی کچہری کے دھکے کھانے ابھی باقی تھے۔صادق صاحب کی مکان بنانے کی خواہش دل میں ہی رہی۔ کیونکہ گاڑی والے روزانہ گھر کے دروازے پر آ کھڑے ہوتے۔ آخر ایک جرگہ نے فیصلہ کیا ، اور فیصلہ کے مطابق صادق صاحب کو اپنے خون پسینے کی کمائی کی ایک خطیر رقم گاڑی والے کو دینی پڑی۔پھر مقدمے کی پیروی میں آنے جانے کا خرچہ ، وکیل کا خرچہ الگ سے ہوتا تھا۔ تو گویا ساری جمع پونجی ہاتھ کا میل ثابت ہو رہی تھی۔اپنی خون پسینے کے کمائی کو یوں بغیر کسی وجہ کے لٹتا دیکھ کر وہ اندر ہی اندر کڑھتے رہے اور زندگی کو روگ لگا بیٹھے۔ یہ روگ پھیپھڑوں کے کینسر میں بدل گیا۔بہتیرا علاج کرایا، لیکن کینسر تو ہزار پا کی طرح جب جکڑ لیتا ہے تو جان لیکر ہی جان چھوڑتا ہے، سو یہ حال انکے ساتھ بھی ہوا۔شاید ہزاروں میں کوئی ایک آدھ اگر زندگی کی بازی جیت جائے تو جیتے، ورنہ تو سارے ہی ہار جاتے ہیں۔ادھر شہزاد کا مقدمہ جاری تھا، ادھر صادق صاحب صاحب فراش ہو گئے تھے۔ ایک دن انکے ایک رشتہ دار انکی تیمارداری کرنے آئے۔ باتوں باتوں میں شہزاد کے مقدمے کا پوچھا۔ جب سنا کہ ابھی تک چل رہا ہے تو بہت افسردہ ہوئے۔کہا کہ انکا ایک جاننے والا ایڈیشنل سول جج ہے وہ اس سے بات کریں گے۔بے شک سارے کام اللہ کی مرضی سے اپنے وقت پر ہوتے ہیں۔وہ رشتہ دار وسیلہ بنے اور انکے کہنے پر ایڈیشنل سول جج نے مداخلت کی اور متعلقہ جج سے کہا کہ جب چارسال سے مدعی نہیں آرہے تو مقدمہ کس وجہ سے لٹکایا ہوا ہے۔

قانون کے مطابق فیصلہ کرو۔ اور پھر اس یک طرفہ مقدمے کا فیصلہ کچھ یوں ہوا کہ اسے داخل دفتر کر دیا گیا۔صادق صاحب نے یہ سنا تو سکون کا سانس لیا کہ کوئی مسلہ تو حل ہوا۔ لیکن یہ سکون کا سانس بھی صرف اس حد تک تھا کہ زندگی کی جو چند گھڑیاں رہ گئی ہیں سکون سے تو گزریں گی۔ کیونکہ انھیں اپنی بیماری کا علم تھا۔اور یہ بھی علم تھا یہ پھیپھڑوں کا سرطان کس سطح پر ہے۔ اگر چہ انکے بیٹوں نے بلکہ ہر کسی نے ان کو اپنی طرف سے لا علم رکھا تھا لیکن جس طرح بارش خدا کی رحمت ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی بندوں کی نظر میں زحمت بن جاتی ہے، اسطرح انکا علم ، تجربہ اور تعلیم بھی انکے بیٹوں کی نظر میں اس موقع پر زحمت بن گئی تھی۔ کہ جس چیز کو وہ ان سے چھپاتے وہ خود اپنی بیگم سے کہہ کر ڈاکٹرز کی رپورٹ منگوا کر پڑھتے۔ اگر چہ بچوں نے والدہ سے درخواست کی ہوئی تھی کہ اگر انکے والد کبھی اس قسم کے کاغذات طلب کریں تو کہہ دیں کہ وہ بچوں نے کہیں چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن انکی بیگم اللہ کے حکم کے مطابق صادق صاحب کو واقعی میں اپنا مجازی خدا سمجھتی تھیں۔ تو انکے حکم کو کیسے ٹال سکتی تھیں۔صادق صاحب پڑھتے اور پھر مسکرا دیتے۔

صادق صاحب کو اللہ نے بہت بڑا دل عطا کیا تھا۔ زندگی میں کبھی کوئی پریشانی آئی تو اسکو دل و دماغ پر سوار نہیں کیا۔بلکہ اللہ تعالیٰ سے اسکا حل طلب کیا اور حل کے لیے دنیاوی طور پر بھی اپنی کوششیں جاری رکھیں۔انکا کہنا تھا کہ کسی بھی پریشانی اگر ذہن پر سوار کروگے تو زندگی کا زوال شروع ہو جائے گا۔ کیونکہ پھر اس پریشانی کا حل نکالنے کے لیے وہ کوششیں نہیں ہوں گی جو دل لگا کر کرنی چاہیے تھیں۔ اور واقعی انھوں نے یہ بات سولہ آنے سچ کہی۔ کیونکہ آج بھی جب جمال کو کوئی پریشانی پیش آتی ہے تو وہ شاید ایک لمحہ کے لیے پریشان ہوتا ہو تو ہو، ہمیشہ اس مسلے کا حل نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔جس کا آغاز اللہ سے دعا مانگتے ہوئے مدد کی درخواست ہوتی ہے اور پھر دنیاوی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔

صادق صاحب کے سرطان کا علم انکے خاندان والوں کو انکی وفات سے صرف چھ ماہ پہلے ہوا تھا۔اور جب علم ہوا تو یہ سرطان تیسرے سٹیج کو ختم کرکے چوتھے اور آخری مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔لیکن آفرین ہے ان پر کہ زندگی کے صرف آخری بیس ، پچیس دن بستر پر گزارے، اور شاید صرف پانچ دن ایسے تھے جن میں انکو کچھ کھلانے پلانے میں مدد کرنا پڑی تھی۔ کیونکہ سرطان ایسا موذی مرض ہے کہ اندر ہی اندر سے پورے جسم کو گھلا دیتا ہے۔باہر سے اگرچہ انسان صحت مند نظر آتا ہے ، لیکن آخری دنوں میں پتہ چلتا ہے کہ مریض تو اب ہلنے جلنے کے قابل بھی نہیں رہا۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں صادق صاحب کی دو خواہشیں اور سامنے آئیں۔ایک تو انکا کوئی پوتا پوتی ہوتے جنھیں وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے، اپنے ہاتھوں سے اسے چھوتے، کچھ دن ہی سہی کم از کم اپنی گود میں کھلاتے۔یہ خواہش اسلئے تھی کہ جمال کی شادی کو چار سال سے زیادہ کا عرصہ گذر گیا تھا لیکن اللہ نے ابھی انکے آنگن میں کوئی پھول نہیں کھلایا تھا۔اور پھر ایک اور خواہش جو انھوں نے کی کہ انکی اکلوتی بیٹی کی شادی انکی زندگی میں ہی ہو جائے۔یہ نہ صرف انکی خواہش تھی بلکہ دو تین دفعہ تو انھوں نے اصرار بھی کیا۔ اگرچہ وہ بستر مرگ پر تھے لیکن پھر بھی اپنے گھر میں ڈھولک کی تھاپ پر ایک دفعہ بابل کے گیت سننا چاہتے تھے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسی کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ انھوں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔تو صادق صاحب بھی یہ تینوں خواہشیں کہ اپنا گھر، پوتا/پوتی اور بیٹی کی شادی، اپنے سینے میں دفن کیے اپنے ساتھ لے گئے۔رمضان المبارک کا ماہ مقدس شروع ہو چکا تھا۔ اللہ کی راہ میں سحری اور افطاری آباد ہونا شروع ہو گئی تھی۔تیسرے روزے کی تیاریاں کی جار رہی تھی۔ کسی گھر میں پراٹھے پک رہے تھے تو کسی گھر میں انڈوں کا آملیٹ بنایا جارہا تھا۔ ادھر صادق صاحب کے گھر میں سحری کی تیاری ہو رہی تھی اور ادھر وہ ہسپتال میں ایک بیڈ پر بڑے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ انکے تین جوان بیٹے بے بسی کی حالت میں انکے ارد گرد کھڑے انکی اکھڑتی سانسوں کو سن رہے تھے اور بدن کے جھٹکے دیکھ رہے تھے۔ جس جس بیٹے کو قرآن پاک کی جو جو سورتیں یاد تھیں وہ انکا ورد کر رہا تھا۔اور پھر انھوں نے ایک آخری ہچکی لی اور جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ کے کاموں میں کوئی بھی چاہے کوئی نبی ہو یا ولی ہو، کوئی بھی مداخلت نہیں کر سکتا۔ صادق صاحب کی تینوں خواہشیں تب پوری ہوئیں جب وہ اس دنیا میں نہیں تھے۔اور انکی وفات کے ایک سال کے اندر اندر پوری ہوئیں۔جمال اور بھائیوں نے بہت دھوم دھام سے اپنی اکلوی بہن کی رخصتی کی۔ وقت رخصت اگر نہیںرویا تو آسمان نہیں رویا ورنہ وہاں موجود کوئی فرد ایسا نہ تھا جسکے آنسوں نہ بہے ہوں۔ کوئی ہچکیوں سے نہ رویا ہو۔کہ آج سب کو صادق صاحب کی یاد آرہی تھی۔ انکی بیٹی کو رخصت کرنے کی خواہش سے سارے واقف تھے۔اسی سال انھوں نے اپنے گھر کی تعمیر شروع کی۔ جس پلاٹ پر گھر کی بنیاد رکھی وہ پلاٹ صادق صاحب نے اپنی وفات سے کوئی ایک سال پہلے شہزاد پر کیے گئے خرچے سے بچی ہوئی رقم سے خریدا تھا۔اور پھر اسی سال اللہ پاک نے جمال کو ایک خوبصورت بیٹی سے نوازا۔ بچی کے نین نقش ہو بہو ویسے ہی تھے جیسے کہ صادق صاحب کی خواہش تھی۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے

صادق صاحب اس دنیا سے چلے گئے، انکی تینوں بڑی خواہشیں پوری ہوئیں۔ہر خواہش پوری ہونے پر انکے خاندان والوں نے رشک کا اظہار کیا ااور ساتھ میں افسوس کا اظہار بھی۔لیکن

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔

ان میں سے کوئی خواہش بھی ناجائز نہیں تھی۔ ساری کی ساری اسلام کے دائرے کے اند ر تھیں۔ لیکن اللہ پاک کی حکمتیں تو وہ خود ہی جانے۔ ہم تو اسکے عاجز بندے ہیں۔ جب کسی کی جائز خواہشات پوری نہیں ہو سکتیں، تو ناجائز کے نہ پورے ہونے پر رونا دھونا کیسا۔

Ibn e Niaz

Ibn e Niaz

تحریر: ابن نیاز