چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‎

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

تحریر : عماد ظفر
اکتوبر کا مہینہ ملکی سیاست میں ایک بھیانک باب کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے. 12 اکتوبر 1999 کو مشرف نے اپنی نوکری بچانے کے لیئے ایک دو تہائی اکثریت والے منتخب وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کو گھر بھیج کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا. مشرف کے اس ایڈونچر کی قیمت آج تک ہم پاکستان میں بسنے والے دہشت گردی لوڈشیڈنگ اور کمزور جمہوری نظام کی صورت میں بھگت رہے ہیں.

قسمت کا کھیل دیکھئے کہ وہ وزیر اعظم جسے مشرف نے ہتھکڑیاں لگا کر جیل بھیج دیا تھا اور بعد میں اسے خاندان سمیت جلا وطن کر دیا تھا آج پھر کم و بیش دو تہائی کے قریب اکثریت سے پاکستان کا وزیر اعظم ہے اور مشرف عدالتوں میں اپنے خلاف کیسز سے بچنے کی خاطر فوج کے ادارے کے پیچھے چھپا بیٹھا ہےـ.وہ نام نہاد بہادر کمانڈو جو مکہ لہرا کر اعلان کیا کرتا تھا کہ اسے ڈر نہیں لگتا عدالتوں میں پیشی کے موقع پر بیمار پڑ جاتا ہے اور جھوٹے میڈیکل سرٹیفیکیٹس پیش کرتا ہے. اور پھر راتوں رات وطن سے فرار ہو جاتا ہے.

فوج کے ادارے کی آڑ میں یہ شخص کچھ ریٹائرڈ جنریلوں کے ساتھ مل کر آج بھی جمہوریت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے.خیر اکتوبر کا مہینہ روایتی طور پر نواز شدید پر کچھ زیادہ ہی بھاری دکھائی دیتا ہے. اکتوبر 1999 کی طرح ایک بار پھر نواز شریف شدید مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں.ایک جانب عمران خان کا متوقع دھرنہ اور دوسری جانب سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی اگر یہ سب کچھ کم تھا تو حال ہی میں قومی سلامتی کی میٹنگ کی اندرونی کہانی اور قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ کچھ تلخ جملوں کو ایک صحافی کے ذریعے لیک آؤٹ کروا کر نواز حکومت نے اپنی مشکلات میں مزید اضافہ کر لیا ہے.

Democracy

Democracy

سیرل المیڈا ایک صحافی ہے اور ڈان اخبار سے تعلق کی وجہ سے خوش نصیب بھی کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس چند افراد نے اسے اغوا کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ صرف ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر اس کا نام ڈال کر ہی اکتفا کر لیا گیا. سیرل نے جو خبر ملٹری اور سویلین قیادتوں کے حوالے سے دی تھی وہ کوئی نئ بات نہ تھی البتہ سیرل المیڈہ کو جس طریقے سے سول اور دفاعی جنگ کے درمیان بطور مہرہ بنایا گیا نا صرف وہ قابل مذمت بھی ہے بلکہ خود نواز شریف اور ان کی حکومت کی ساکھ کیلئے نقصان دہ بھی. جب سول ملٹری کشیدگی کی خبر نکال دی گئی تھی تو پھر حکومت کو اپنے اوپر پڑنے والا دباؤ بھی خود برداشت کرنا چائیے تھا نا کہ ڈان اخبار یا سیرل المائدہ کو بلی کا بکرا بنا کر پھر سے دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے آگے گھٹنے ٹیک دینے چائیے تھے.

دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ نے مشرف دور کے بعد ایک سبق بے حد اچھی طرح سیکھ لیا ہے اور وہ یہ ہے کہ معاملات کو پس پردہ رہ کر چلایا جائے اور جمہوریت کے نام پر کٹھ پتلی حکومتوں کو چلتے رہنے دیا جائے. اندرونی و بیرونی سلامتی کی پالیسیاں اور خارجہ پالیسیاں دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے پاس اور غربت دور کرنے سے لے کر بے بہا مسائل کے حل کی تلاش سویلین حکومتوں کے پاس. اس طرح نہ صرف دفاعی بیانیہ بنا کسی چیلنج کے جوں کا توں موجود رہتا ہے بلکہ خارجی اور داخلی محاذوں پر ناکامی بھی سول حکومتوں کے کاندھوں پر آتی ہے .اور یوں مٹی جمہوریت کی پلید ہوتی رہتی ہے.یہ اور بات کہ جمہوریت کا نام لے کر حکومت کرنے والے سیاستدان بھی بزدل آمروں کی طرح جمہوری بیانیے کو مزید کمزور کرتے ہیں.

سیرل المائدہ اور ڈان کے معاملے کو لیکر جو جگ ہنسائی دنیا بھر میں پاکستان کی ہوئی وہ اپنی جگہ لیکن ایک جمہوری دور حکومت میں اس قسم کا اقدام خود نواز شریف اور ان کی جماعت کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں.ایک اور بات جس پر پردہ ڈالنے کیلئے سیرل کو بلی کا بکرا بنائے جانے کی کوشش کی گئی وہ یہ کہ اتنی اعلی سطح کی میٹنگ کی اندرونی کہانی آخر کس نے باہر تک پہنچائی. صاف ظاہر پے کہ حکومتی ارکان کو بچانے اور فیس سیونگ کیلئے سیرل اور ڈان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے.

Pakistan

Pakistan

خیر بات سیرل یا ڈان کی نہیں ہے بلکہ اسی بیانیے کی ہے جو آج بھی وطن عزیز پر جبرا مسلط ہے اور یہ بیانیہ نہ تو کسی تنقید کو برداشت کرتا ہے اور نہ سوالات کو. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون یہ طے کرے گا کہ سیکیورٹی سٹیٹ یعنی دفاعی ریاست نہیں بلکہ فلاحی ریاست کے نام پر اس وطن کی بنیاد ڈالی گئی تھی. اور پھر گذشتہ 70 برس کیا کم نہیں یہ جاننے کیلئے کہ دفاعی ریاست کا فارمولا نہ صرف ناکام ہو چکا ہے بلکہ اقوام عالم میں ہمیں تنہائی کا شکار بھی کر چکا ہے. 12 اکتوبر کو یوم سیاہ منانے یا چند سیمینارز منعقد کرنے سے یہ بنیادی مسئلہ ہرچند بھی حل نہیں ہو گا.

جب تک ہم بطور قوم اور ریاست اپنا بیانیہ جمہوریت اور فلاحی ریاست کے قائم نہیں کرتے تب تک طالع آزما کبھی چھپ کر اور کبھی سامنے سے جمہوریت پر وار کرتے ہی رہیں گے.دوسری جانب جمہوری قوتوں کو بھی فیصلہ کرنا پو گا کہ کیا شخصی آمریت اور خاندانی تسلط کے اثر سے اپنی اپنی جماعتوں کو آزاد کروا کے جمہوریت کو پنپنے دینا ہے یا نہیں. جمہوریت یا آمریت ہمیشہ قومی بیانیے کی وجہ سے مضبوط ہوتے ہیں یہاں ستر برسوں بعد بھی ہمارا بیانیہ ہائی جیک ہو کر فلاحی سے دفاعی ریاست کا بنا ہوا ہے ایسے میں آزادی اظہار رائے جمہوری قدریں انسانی حقوق کی پاسداری محض ایک فریب ہی ہو سکتا ہے.بقول فیض چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی.

Imad Zafar

Imad Zafar

تحریر : عماد ظفر