ڈھاکا ریستوران کے حملہ آوروں کا مبینہ تربیت کار ہلاک

Dhaka Police

Dhaka Police

ڈھاکا (جیوڈیسک) پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل مخلص الرحمن نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ شخص مبینہ طور پر جماعت المجاہدین کے عسکری ونگ کا سربراہ تھا۔ بنگلہ دیش کی پولیس نے ایک کارروائی کے دوران جولائی میں دارالحکومت ڈھاکا کے ریستوران پر حملہ کرنے والوں کو مبینہ طور پر تربیت فراہم کرنے والے شخص کو ہلاک کرنے کا بتایا ہے۔

ریستوران پر حملہ کرنے والوں نے یہاں متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا تھا اور بعد ازاں 20 کو ہلاک کردیا جن میں 17 غیر ملکی بھی شامل تھے۔ حکام کے مطابق یہ کارروائی ڈھاکا کے مضافاتی علاقے میرپور میں جمعہ کو رات گئے کی گئی اور مارے جانے والے شخص کی شناخت مراد کے نام سے کی گئی۔

حکام نے ہفتہ کو بتایا کہ یہ شخص 40 سے 45 سال کی عمر کا تھا جو کہ جہانگیر اور عمر کے نام سے بھی جانا تھا لیکن اس کی مکمل شناخت کی جا رہی ہے۔ پولیس کے سربراہ مونس الاسلام نے بتایا کہ یہ شخص ایک چھ منزلہ عمارت کی پانچویں منزل پر واقع اپنے کرائے کے فلیٹ سے کچھ چیزیں لینے آیا تھا جہاں اس سے پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔

“ہم نے مالک مکان سے کہہ رکھا تھا کہ اس شخص کے یہاں آنے پر ہمیں مطلع کرے۔ وہ گزشتہ رات آیا اور ہم نے اس کی گرفتاری کے لیے چھاپا مارا۔ لیکن اس شخص نے پستول کے ساتھ پولیس پر فائرنگ شروع کر دی اور اسے گھیرے میں لینے والے دو افسروں کو چاقو کے وار سے زخمی کیا۔ ایک تیسرا پولیس والا گولی لگنے سے زخمی ہوا۔”

پولیس نے ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان خبروں کی تصدیق نہیں کی کہ یہ شخص فوج سے نکالا جانے والا ایک میجر تھا۔

پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل مخلص الرحمن نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ شخص مبینہ طور پر جماعت المجاہدین کے عسکری ونگ کا سربراہ تھا۔ یہ جماعت شدت پسند گروپ داعش سے وفاداری کا اعلان کر چکی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ “اس نے جولائی میں حملہ کرنے والوں کو تربیت فراہم کی۔”

اس شخص کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ نارائن گنج ضلع میں بہت آتا جاتا رہا جہاں ڈھاکا حملے کا مبینہ منصوبہ ساز تمیم چودھری کو اس کے دو ساتھیوں سمیت پولیس نے کارروائی کر کے 27 اگست کو ہلاک کر دیا تھا۔ تمیم بنگلہ دیشی نژاد کینیڈین شہری تھا اور باور کیا جاتا ہے کہ وہ داعش کا بنگلہ دیش میں پروپیگنڈہ مہم کا سربراہ تھا۔

حالیہ مہینوں میں آزاد خیال مصنفین اور غیر ملکیوں پر ہلاکت خیز حملوں کے واقعات کے باعث بنگلہ دیش پر ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کے لیے عالمی سطح پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ رواں ہفتے کے اوائل میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دورہ ڈھاکا کے دوران بنگلہ دیش کی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ انتہا پسندوں کے خلاف مزید اقدام کرے۔